ریاض خیرآبادی کو خیّامِ ہند کہا جاتا ہے۔ وہ 28 جولائی 1934ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔
کہتے ہیں انھوں نے نہایت سادہ اور پاکیزہ زندگی بسر کی، لیکن ان کے کلام میں شراب و شباب، رندی و سَرشاری کے مضامین کی کثرت ہے اور اسی لیے وہ شاعرِ خمریات بھی مشہور ہیں۔
ان کا اصل نام سیّد ریاض احمد تھا۔ شاعری کا آغاز کیا تو ریاض تخلّص اپنایا اور اپنے آبائی علاقے کی نسبت اس میں خیر آبادی کا اضافہ کیا۔ ادبی تذکروں میں ان کا سن و جائے پیدائش 1855ء اور خیر آباد لکھا ہے۔
ریاض خیرآبادی نے اسیر لکھنوی سے اصلاح لی اور ان کی وفات کے بعد امیر مینائی کے شاگرد ہوگئے۔ شعر و ادب کے ساتھ لگاؤ اور تصنیف کا شوق ایسا تھا کہ شاعری کے ساتھ متعدد اخبار و رسائل کا اجرا کیا جن میں ریاضُ الاخبار، صلحِ کل، گلکدۂ ریاض، فتنہ، پیامِ یار شامل ہیں۔ انھوں نے چند انگریزی ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔
ریاض خیر آبادی آخر عمر میں خانہ نشین ہو گئے اور 82 سال کی عمر میں وفات پائی۔
ان کا دیوان "دیوانِ ریاض” کے نام سے شائع ہوا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
بچ جائے جوانی میں جو دنیا کی ہوا سے
ہوتا ہے فرشتہ کوئی انساں نہیں ہوتا
مے خانے میں کیوں یادِ خدا ہوتی ہے اکثر
مسجد میں تو ذکرِ مے و مینا نہیں ہوتا
دھوکے سے پلا دی تھی اسے بھی کوئی دو گھونٹ
پہلے سے بہت نرم ہے واعظ کی زباں اب