اگر ہم بچّوں کے ادب کے مدارج دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ بچّوں کے ادب کی ترقّی کا سلسلہ انیسویں صدی سے شروع ہوا اور بیسویں صدی میں تو اس میں ایک زبردست انقلاب آیا۔ اس صدی میں بچّوں کا ادب عروج کی منزلوں پر پہنچ گیا۔
مشرقی ملکوں میں بچّوں کے ادب میں زندگی کے مادّی پہلوؤں مذہب و اخلاق پر خاص طور سے توجہ دی گئی جیسے سچّے تنتر میں دل چسپ کہانیوں کے ذریعہ اخلاق و حکمت کی تعلیم دی گئی۔ بچّے کا کائنات سے اوّلین رابطہ کہانیوں کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے یعنی طوطے، مینا، پریوں، پرندوں، راجاؤں، پھولوں کی کہانیوں کے ذریعہ ارد گرد کی چیزوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ کہانیوں کے کردار اس کے ارد گرد گھومنے لگتے ہیں۔ اور وہ خود کو ان چیزوں کا ایک حصّہ سمجھنے لگتا ہے۔
ان کہانیوں کے ذریعہ وہ ان چیزوں کو اپنانے اور رد کرنے کا عمل سیکھتا ہے۔ ڈرامے کی دنیا بچّوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ جہاں پر وہ خود کو وہ کردار ادا کرتے دیکھتا ہے جس کو وہ کتابوں میں پڑھتا ہے۔ اسی لیے بچّے ڈرامے بھی بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ بچّوں کے ڈرامے بہت سادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اس کو بڑے شوق سے اپناتے ہیں۔ تصویر بھی بچّے کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ تصویر کا تعلق براہِ راست دل اور نظر سے ہوتا ہے۔ یہ بچّوں کی قوّتِ متخیلہ بڑھاتی ہے۔ تصویر کی مدد سے وہ تمام چیزوں سے واقف ہوتا ہے۔ اس کی مدد سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔
بچّوں کے ادب کی اہم خصوصیت اس کا حیرت اور استعجاب ہے۔ اس کی وجہ سے بچّوں میں کیوں، کیا اور کیسے، کب جیسے سوالا ت اٹھتے ہیں۔چوں کہ بچّہ کی فطرت متجسس ہوتی ہے، اس لیے بچّوں کے ادب میں بھی حیرت اور تجسس کا عنصر ہونا ضروری ہے۔ کبھی وہ جانور کی شکل تو کبھی دیو اور بھوت تو کبھی پری کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اسی لیے پنچ تنتر میں جانوروں کی بولی کی وجہ سے وہ اتنی دل چسپ اور انوکھی چیز بن گئی کہ صدیوں کے بعد بھی اس ادب کا مزہ تر و تازہ ہے۔
اس کے علاوہ بچّوں کے ادب کی زبان سادہ عام فہم اور مزے دار ہو جو روز مرّہ کے الفاظ پر مشتمل ہو جن کو پڑھ کر بچّے نہ صرف لطف اندوز ہوں بلکہ وہ کہانی کی چاشنی کو محسوس کریں۔
اس کے بعد بچّوں کی سیرت کی تعمیر ہو، مذہبی عقائد کے قصّے بزرگوں کی کہانیاں، ان کی سیرت، بہادروں کے کارنامے، خدا کا خوف، سیرت سے واقفیت بھی ادبِ اطفال کے ادیبوں کی اہم ذمہ داری ہے۔ ادبِ اطفال کی سب سے اہم ذمہ داری یکجہتی، بھائی چارگی، حب الوطنی، آپسی میل ملاپ کا بڑھاوا ہو۔ ان کی تربیت میں نفرت، عداوت، جلن جیسی رزیل چیزوں کو ان کی سیرتوں سے پرے رکھنا بھی ادیب کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ ان کے موضوعات ایسے ہوں جن میں ہمیشہ نیا پن ہو کیوں کہ وہ ایک جیسی چیزوں سے اکتا جاتے ہیں۔
ادب کے ذریعہ بچوں کو تنگ نظری تعصب جیسی برائیوں سے دور رہنے کا درس فراہم کرنا چاہیے۔ انھیں ایسی باتیں بتائی جائیں جن سے ان کے ذہن میں وسیع النّظری کو فروغ ملے اور محبت کی فضا قائم رہ سکے۔
(ماخوذ از: مضمون برائے سمینار بہ عنوان "اردو ادب: تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل” شمیم سلطانہ، تلنگانہ)