آج اردو زبان کے مشہور شاعر اور متعدد نثری کتب کے مصنّف احسن مارہروی کا یومِ وفات ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے شہر پٹنہ میں 1940ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔
ان کا اصل نام سید علی احسن تھا، عرفیت شاہ میاں جب کہ شعر گوئی کا آغاز کیا تو احسن تخلّص اختیار کیا۔ مارہرہ ضلع ایٹہ میں 9 نومبر 1876ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد 1895ء میں استاد داغ دہلوی کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا۔ 1921ء میں علی گڑھ میں اردو کے لیکچرر مقرر ہوئے اور بعد میں پروفیسر ہوگئے۔
داغ کی شاگری اختیار کرنے بعد انھوں نے ماہنامہ گلدستہ ریاضِ سخن جاری کیا۔ 1898ء میں مارہرہ سے حیدر آباد دکن چلے گئے۔ 1904ء میں اس وقت کے متحدہ ہندوستان کے شہر لاہور آئے اور لالہ سری رام کے تذکرے کا مسوّدہ لکھا۔ بعد ازاں استاد داغ کی یاد میں رسالہ فصیحُ الملک جاری کیا۔
انھوں نے شاعری کے مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات یادگار چھوڑا۔ نمونہ منثورات احسن مارہروی کی ایک شاہ کار کتاب ہے جس میں اردو کی ابتدا، نثر کے وہ تمام نمونے جن کا ریاست اور دفاتر سے تعلق ہے اور ایک زبان کو وقیع بنا سکتے ہیں، شامل ہیں۔ اردو زبان کی شعبہ وار تاریخی ترقی کے نقطۂ نظر سے ان کے یہ مضامین اور دستاویزی نمونے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے 1930ء میں شائع بھی ہوئے جن میں ریاستی دفاتر سے متعلق احکام و ہدایات اور کارگزاریوں اور اسی نوع کے نامے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ فاضل مرتّب نے دفتری اردو میں ہونے والی لسانی تبدیلیوں کو بیان کرتے ہوئے دفتری نظام کے ارتقا کا مفصّل جائزہ بھی لیا ہے۔
ان کی کتب ’’جلوۂ داغ‘‘ (استاد داغ کی زندگی) ’’انشائے داغ‘‘(مکتوباتِ استاد داغ)، ’’تاریخ نثر اردو‘‘، اور تحفہ احسن‘‘، ’’احسن الانتخاب‘‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔
احسن مارہروی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
کیا ضرورت بے ضرورت دیکھنا
تم نہ آئینے کی صورت دیکھنا
پھر گئیں بیمارِ غم کو دیکھ کر
اپنی آنکھوں کی مروت دیکھنا
ہم کہاں، اے دل کہاں دیدارِ یار
ہو گیا تیری بدولت دیکھنا
ہے وہ جب دل میں تو کیسی جستجو
ڈھونڈنے والوں کی غفلت دیکھنا
سامنے تعریف پیچھے گالیاں
ان کی منہ دیکھی محبت دیکھنا
اور کچھ تم کو نہ آئے گا نظر
دل میں رہ کر دل کی حسرت دیکھنا
صبح اٹھ کر دیکھنا احسنؔ کا منہ
ایسے ویسوں کی نہ صورت دیکھنا