اشتہار

جھوٹ پکڑنے کا ایک اور طریقہ سامنے آگیا

اشتہار

حیرت انگیز

سماجی رویوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جھوٹ بولتے ہوئے اکثر لوگ دھیما بولتے ہیں، جملے کے درمیان میں ادا کردہ الفاظ پر زور کم دیتے ہیں اور یوں ان کی آواز بھی جھوٹ کی چغلی کرتی دکھائی دیتی ہے۔

فرانس کی سوربون یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک دلچسپ تجربہ کیا ہے جس میں صرف آواز کی شدت اور جھوٹ کے درمیان تعلق واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس تحقیق کے لیے فرانسیسی قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق (سی این آر ایس) نے بھی کلیدی کردار کیا۔

تجربے کے دوران معلوم ہوا کہ آواز کی پچ، بولنے کی شرح اور شدت بھی بتا سکتی ہے کہ بولنے والا جھوٹ بول رہا ہے یا سچائی سے کام لے رہا ہے۔

- Advertisement -

ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی کی آواز میں غنایت (میلوڈی) اس کے سچ بولنے کی معلومات دے سکتی ہے۔ ایسا یوں ہوتا ہے کہ دماغ زبان کا ساتھ نہیں دے پاتا اور آواز دھیمی ہوتی جاتی ہے اور یوں الفاظ پر زور بھی کم ہوجاتا ہے کیونکہ بولنے والا جانتا ہے کہ وہ غلط بیانی کررہا ہے۔

اس کیفیت کو پروسوڈی بھی کہا جاتا ہے جس میں الفاظ اور جملوں کے بجائے آواز کے زیر و بم کو دیکھا جاتا ہے۔

اس کیفیت کو دیکھا جائے تو کم از کم انگریزی، ہسپانوی اور فرانسیسی زبانوں پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے یعنی تینوں زبانوں میں جھوٹ بولنے والے یکساں انداز سے بات کرتے ہیں۔ یہ کیفیت دماغ میں پروگرام ہوتی ہے اور اس سے الگ ہو کر کچھ کرنے کے لیے دماغ کو بہت تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے مستقل دروغ گو بننا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں