انسان کے بچے دیگر جانداروں کی نسبت بولنے اور سیکھنے کے عمل کو دیر سے مکمل کرتے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ انسانوں کے بچے افزائش اور سیکھنے میں زیادہ وقت اس لئے لیتے ہیں کیونکہ ان کے دماغ کا سائز بڑا ہوتا ہے۔
اس بڑے سائز کے دماغ کی افزائش پہ ان کی 80 سے85% فیصد توانائی لگ جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی تمام تر توجہ دماغی افزائش پر دیتے ہیں اور اسی لیے وہ جلدی چل یا بول نہیں سکتے۔
ماہرین کے مطابق جسم کے تناسب سے انسان کا دماغ تقریباً باقی تمام جانوروں سے بڑا ہوتا ہے کیونکہ انسان کی نوع کی کامیابی کا راز اس کی بہترین ذہانت ہے۔
جسم کے تناسب سے انسانی بچے کا دماغ بھی باقی تمام ممالیہ جانوروں کے بچوں کے دماغ سے بڑا ہوتا ہے لیکن زیادہ بڑے دماغ کے لیے زیادہ بڑی کھوپڑی بھی درکار ہوتی ہے۔
بڑی کھوپڑی کا ماں کے جسم سے فطری اخراج زیادہ مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے، انسانی بچے کی پیدائش باقی ممالیہ جانوروں کی نسبت زیادہ تکلیف دہ اسی لیے ہوتی ہے کہ انسانی بچے کی جسامت اور اس کی کھوپڑی ماں کی (برتھ کینال) کے تناسب میں باقی جانوروں سے بڑی ہوتی ہے۔
اگر ارتقاء کے مراحل میں یہ ضروری ہوتا (یعنی جو بچے ایسا نہ کر پاتے وہ زندہ نہیں رہ پاتے) کہ انسانی بچہ پیدا ہوتے ہی چل پھر سکے تو پیدائش سے پہلے بچے کا دماغ چھوٹا رہتا جس سے بچہ جلد چلنے پھرنے کے قابل تو ہو جاتا لیکن ماں باپ اور ماحول سے جلد سیکھنے کی صلاحیت نہ رکھتا۔
چونکہ والدین اپنے بچوں کی بلوغت تک ان کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ضروریات زندگی فراہم کرتے ہیں اس لیے ارتقاء کے مراحل میں انسانی بچے ذہانت کے لیے یہ بہتر ہوتا ہے یعنی ان کا دماغ بڑا ہوتا ہے۔
اس کا ضمنی نتیجہ یہ نکلا کہ بچے پیدا ہوتے ہی چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ چلنا پھرنا بھی سیکھنا پڑتا ہے یعنی تجربات کی بنا پر دماغ میں اندرونی کنکشنز اس طرح سے بنتے ہیں کہ دماغ دو پاؤں پر جسم کو بیلینس کرنے کی کیلکولیشنز غیر شعوری طور پر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
گویا انسانی دماغ کی پلاسٹیسیٹی یعنی تجربات یعنی سٹیمولیس کے نتیجے میں دماغ کی وائرنگ کا تبدیل ہوجانا)، ذہانت (یعنی بڑے دماغ کی ضرورت) اور ماں کی برتھ کینال کی جسامت ان سب عوامل نے مل کر وہ ارتقائی رکاوٹیں پیدا کیں جن میں انسانی بچے کی جسامت اور پیدائش کے فوراً بعد بچے کی قابلیت کی حدود متعین ہوئیں۔