بیگم نے ہمیں ایک دن یہ اطلاع دی کہ ہماری تنخواہ 13 تاریخ تک کے لیے بالکل کافی ہوتی ہے تو ہمیں پوپ گریگری پر بڑا غصہ آیا جس نے عیسوی کیلنڈر کی ترتیب و اصلاح کرتے وقت یہ تباہ کن فیصلہ کیا تھا کہ کوئی مہینہ 28 دن سے کم کا نہ ہوگا۔
ظالم کو اصلاح ہی کرنی تھی تو ٹھیک سے کرتا۔ خیر، گرم گرم گرہستی چوٹ تھی۔ ہم نے دوسرے ہی دن اینڈرسن کی اسٹینو گرافر کو ایک درخواست ڈکٹیٹ کروائی جس میں احتجاج کیا کہ جس تنخواہ کا بینک کے چیئرمین مسٹر ایم۔ اے۔ اصفہانی نے وعدہ کر کے ہم سے سول سروس سے استعفیٰ دلوایا تھا، اس کے نصف پر ہمیں ٹرخا دیا گیا۔ لہٰذا چارسو روپے کا فوری اضافہ کیا جائے اور بقایا جات ادا کیے جائیں۔
اس لُتری نے غالباً اس کی پیشگی اطلاع اسے دے دی۔ جبھی تو درخواست ٹائپ ہونے سے پہلے ہی اس نے ہمیں طلب کرلیا۔ کہنے لگا بینک کا حال تو اورینٹ ایئرویز سے بھی بدتر ہے۔ شیئر کی قیمت کا کریش ہو چکا ہے۔ خسارہ ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک فراڈ بھی ہو گیا ہے۔
بینک فراڈ دراصل اعداد و شمار کی شاعری ہے۔ صبح کیش پوزیشن دیکھ کر گلے میں پھندا سا پڑ جاتا ہے۔ میں خود آج کل ضرورت مند صنعت کاروں اور تاجروں کو اوور ڈرافٹ کے بجائے قیمتی مشورے دے رہا ہوں۔ بینک موجودہ اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میں تمہاری تنخواہ کی طرف سے بہت فکر مند رہتا ہوں۔ مگر تم عیال دار آدمی ہو۔ گھٹاتے ہوئے ڈرتا ہوں۔
تنخواہ میں مزید تخفیف کی بشارت کے علاوہ اس نے معاشیات پر لمبا سا لیکچر بھی دیا جس کے دوران رف پیڈ پر ڈائگرام بنا کر ہمیں ذہن نشین کرایا کہ اگر قومی پیداوار میں اضافہ ہو اور تنخواہیں اور اجرتیں بڑھتی ہی چلی جائیں تو ملک کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ انگلینڈ اسی طرح برباد ہو رہا ہے۔
ہم اس کے کمرے سے نکلے تو ہر چند ہماری تنخواہ وہی تھی جو کمرے میں داخل ہونے سے پیشتر تھی، لیکن اس خیال ہی سے ایک عجیب طرح کی سرخوشی اور طمانیت محسوس ہوئی کہ ہماری ترقی سے ساری معیشت تباہ ہوسکتی ہے۔
(ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر موصوف سے انتخاب)