دو قومی نظریے کےخالق سرسیداحمدخان کا آج 203 واں یوم پیدائش منایا جارہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق دوقومی نظریے کےخالق اوربرصغیر کے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی جانب راغب کرنے والےسرسید احمد خان کے یوم پیدائش انہیں خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔
سرسید احمد خاں برصغیر میں مسلم نشاتِ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔
سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔ اورانگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُن کو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جِدوجُہد کرتے رہے۔
انگلستان کے تعلیمی نظام کا معائنہ
سنہ 1869ء میں آپ کے بیٹے سید محمود کو حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھیجا گیا۔ آپ بھی 1869ء میں اپنے بیٹے کے ہمراہ انگلستان چلے گئے۔ وہاں جا کر آپ نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا۔ آپ ان یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم سے بہت متاثر ہوئے اور یہ ارادہ کیا کہ ہندوستان جا کر ان یونیورسٹیوں کی طرز کا ایک کالج قائم کریں گے۔
آپ انگلستان سے 1870ء میں واپس آئے اور ہندوستان میں انجمن ترقی مسلمانان ہند کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔
سنہ 1870ء میں آپ نے رسالہ تہذیب الاخلاق لکھا جس میں آپ نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلووٕں کی نشاندہی کی جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے ان پہلووٕں کی فوری اصلاح کریں۔
علی گڑھ کالج کا قیام
انگلستان سے واپسی پر آپ نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی جس نے اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک کالج کے قیام کے لئے کام شروع کیا۔ اس کمیٹی کو محمڈن کالج کمیٹی کہا جاتا ہے۔ کمیٹی نے ایک فنڈ کمیٹی قائم کی جس نے ملک کے طول و عرض سے کالج کے لئے چندہ اکٹھا کیا۔ حکومت سے بھی امداد کی درخواست کی گئی۔
سنہ 1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول قائم کیا۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم پڑھانے کا بندوبست کیا گیا۔ 1877ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا جس کا افتتاح لارڈ لٹن نے کیا۔
یہ کالج رہائشی کالج تھا اور یہاں پر تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ سرسید کی یہ دلی خواہش تھی کہ اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلا دیں۔ یہ کالج سرسید کی وفات کے بعد 1920ء میں یونیورسٹی بن گیا یہاں سے فارغ التحصیل طلباءنے آگے چل کر تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔
محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس
سرسید احمد خان نے 27 دسمبر 1886ء کو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی اس کانفرنس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے اقدامات کرنا تھا۔ اس کا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ہوا۔ کانفرنس نے تعلیم کی اشاعت کے لئے مختلف مقامات پر جلسے کئے۔ہر شہر اور قصبے میں اس کی ذیلی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ اس کانفرنس کی کوششوں سے مسلمانوں کے اندر تعلیمی جذبہ اور شوق پیدا ہوا۔
اس کانفرنس نے ملک کے ہر حصے میں اجلاس منعقد کئے اور مسلمانوں کو جدید تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرایا۔ اس کانفرنس کے سربراہوں میں نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، مولانا شبلی اور مولانا حالی جیسی ہستیاں شامل تھیں۔
محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ مختلف شہروں میں ہوتا تھا۔ جہاں مقامی مسلمانوں سے مل کر تعلیمی ترقی کے اقدامات پر غور کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کے تجارتی، تعلیمی، صنعتی اور زراعتی مسائل پر غور کیا جاتا تھا۔
تصانیف
سرسید ایک متنوع المزاج شخصیت تھے اور ان کا یہی رنگ ان کی متفرق موضوعات پر موجود تصانیف میں نظرآتا ہے جیسا کہ آرکیالوجی جیسے موضوع پرآثارالصناعید جیس معرکتہ الآراء کتاب مرتب کی۔
انہوں نے مراد آباد میں آ کر اسبابِ بغاوتِ ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اورخاص کر مسلمانوں کو، جن پر سارا نچوڑ انگریزوں کی بدگمانی کا تھا، بغاوت کے الزام سے بری کیا ہے اور اس خطرناک اور نازک وقت میں وہ تمام الزامات جو لوگوں کے خیال میں گورنمنٹ پر عائد ہوتے تھے، نہایت دلیری اور آزادی کے ساتھ پوست کندہ بیان کئے ہیں اور جو اسباب کہ انگریزوں کے ذہن میں جاگزیں تھے، ان کی تردید کی ہے اور ان کو غلط بتایا ہے۔
سر سید نے یہ تاریخ بھی اپنی جبلی عادت کے موافق نہایت تحقیق اور کاوش اور محنت کے ساتھ لکھی۔ ان کا بیان ہے کہ ’’گو اس تاریخ میں ضلع کے حالات کے سوا کوئی عام دلچسپی کی بات نہ تھی مگر اثنائے تحقیقات بعض قانون گویوں کے پاس اکبر اور عالمگیر کے زمانہ کے ایسے کاغذات ملے جن سے نہایت عمدہ نتیجے نکلتے تھے‘‘۔
ان سب کاغذات کی نقلیں اپنے اپنے موقع پر اس تاریخ میں درج تھیں۔ جب یہ تاریخ لکھی جا چکی تو صاحب کلکٹر نے اس کو ملاحظہ کے لئے صدربورڈ میں بھیج دیا۔ ابھی وہ بورڈ سے واپس نہ آئی تھی کہ غدر ہو گیا اور آگرہ میں تمام دفتر سرکاری کے ساتھ وہ بھی ضائع ہو گئی۔
سر سید کہتے تھے کہ 1870ء میں جبکہ خطباتِ احمدیہ چھپ کر لندن میں شائع ہوئی تو اس پر لندن کے ایک اخبار میں کسی انگریز نے لکھا تھا کہ عیسائیوں کو ہوشیار ہوجانا چاہیے کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے ان ہی کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے دکھایا ہے کہ اسلام ان داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو عیسائی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں۔
سر سید نے ایک موقع پر اپنی تفسیرِ قرآن کی نسبت کہا کہ ’’اگر زمانہ کی ضرورت مجھ کو مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اپنے ان خیالات کو ظاہر نہ کرتا بلکہ لکھ کر اور ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے چھوڑ جاتا اور یہ لکھ جاتا کہ جب تک ایسا اور ایسا زمانہ نہ آئے، اس کو کوئی کھول کرنہ دیکھے۔ اور اب بھی میں اس کو بہت کم چھپواتا اور گراں بیچتا ہوں تاکہ صرف خاص خاص لوگ اس کو دیکھ سکیں۔ سر دست عام لوگوں میں اس کا شائع ہونا اچھا نہیں!‘‘۔
رسالہ تہذیب وغیرہ ان کے علاوہ سیرت فرید،جام جم بسلسلۃ الملکوت اور مختلف موضو عات پر علمی و ادبی مضامین ہیں جو ’’ مضامین سرسید ‘‘ اور’’ مقالات سرسید ‘‘ کے نام سے مختلف جلدوں میں شائع ہو ئے ہیں ۔
سیاسی خدمات
آپ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کے حصول اورمعاشی و معاشرتی طورپر بحالی پر دیں تاکہ وہ ہندوؤں کے برابر مقام حاصل کر سکیں۔ سرسید ہندو مسلم اختلافات کو ختم کر کے تعاون اور اتحاد کی راہ پر گامزن کرنے کے حق میں بھی تھے۔
سرسید کی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ سرسید نے مسلمانوں کو ایک علاحدہ قوم ثابت کیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے افکار کو آگے بڑھایا۔ دو قومی نظریہ کی اصطلاح سرسید نے ہی سب سے پہلے استعمال کی۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب کے حامل ہیں اور ہر اعتبار سے ایک مکمل قوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی علاحدہ قومی حیثیت کے حوالے سے سرسید احمد نے ان کے لیے لوکل کونسلوں میں نشستوں کی تخصیص چاہی اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لیے کھلے مقابلے کے امتحان کے خلاف مہم چلائی٬ اکثریت کی مرضی کے تحت قائم ہونے والی حکومت والے نظام کو ناپسند کیا۔
انہو ں نے مسلمانوں کی علاحدہ پہچان کروائی اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ان کے لیے تحفظات مانگے۔ سر سید مسلمانوں کوسیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کو 1885ء میں ایک انگریز اے او ہیوم کی کوششوں سے قائم ہونے والی آل انڈیا کانگریس سے دوررکھا۔
بعد میں ہونے والے واقعات نے سرسید کی پالیسی کی افادیت کو ثابت کر دیا ان کو بجا طور پر پاکستان کے بانیوں میں شمار کیا جاتاہے۔ مولوی عبدالحق نے سرسید کی قومی و سیاسی خدمات کے حوالے سے لکھا ہےکہ ’’قصر پاکستان کی بنیاد میں پہلی اینٹ اسی مردِ پیر نے رکھی تھی‘‘۔
سر سید احمد خان نے 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں وفات پائی اور اپنے محبوب کالج کی مسجد میں دفن ہوئے۔ ان کی تمام زندگی قوم و ادب کی خدمت میں گزری۔