ڈاکٹر وحید قریشی پاکستان کے نام وَر ادیب، شاعر، نقّاد، محقّق، معلم اور ماہر لسانیات تھے جنھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ وہ 17 اکتوبر 2009ء کو وفات پاگئے تھے۔
ڈاکٹر وحید قریشی کا تعلق میانوالی سے تھا۔ وہ 14 فروری 1925ء کو پیدا ہوئے۔ پنجاب کے مختلف شہروں کے تعلیمی اداروں سے تحصیلِ علم کے بعد جامعہ تک پہنچے اور فارسی اور تاریخ میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ انھوں نے بطور ریسرچ اسکالر اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ بعد کے برسوں میں فارسی میں پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی اسناد حاصل کیں۔ انھوں نے طویل عرصے تک اسلامیہ کالج لاہور اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔
علمی استعداد، قابلیت اور تخلیقی صلاحیتوں نے انھیں اپنے ہم عصروں میں مختلف حیثیتوں میں نمایاں کیا اور کئی تعلیمی اداروں کے علاوہ اقبال اکادمی پاکستان، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، بزم اقبال اور مغربی پاکستان اردو اکیڈمی سے وابستہ رہے۔
ڈاکٹر وحید قریشی کی تصانیف کی فہرست طویل ہے جس میں شبلی کی حیاتِ معاشقہ، میر حسن اور ان کا زمانہ، مطالعہ حالی، کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، تنقیدی مطالعے، نذر غالب، اقبال اور پاکستانی قومیت، اساسیات اقبال، قائداعظم اور تحریک پاکستان، مقالات تحقیق، جدیدیت کی تلاش میں، مطالعہ ادبیات فارسی، اردو نثر کے میلانات، پاکستان کے تعلیمی مسائل اور شعری مجموعے شامل ہیں۔
ان کی مرتب اور مدون کردہ کتابوں میں اردو کا بہترین انشائی ادب، ارمغانِ ایران، ارمغانِ لاہور، 1965ء کے بہترین مقالے، توضیحی کتابیات ابلاغیات و دیگر شامل ہیں۔
حکومت پاکستان نے ڈاکٹر وحید قریشی کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔