ماہرین نے اس طریقہ کار کو دریافت کرلیا ہے جو کورونا وائرس کے متعدی ہونے پر اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
امریکا کے ادارے این آئی ایچ کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف ڈینٹل اینڈ کرانیوفیشل ریسرچ کی اس تحقیق میں خلیات میں اس عمل کو دریافت کیا جس کے ذریعے ممکنہ طور پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ محدود کی جاسکتی ہے جبکہ ایلفا اور ڈیلٹا اقسام میں موجود میوٹیشنز نے کس طرح اس اثر قابو پاکر خود کو زیادہ متعدی بنالیا۔
کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے بعد سے سارس کوو 2 کی زیادہ متعدی اقسام دریافت ہوچکی ہیں۔ وائرس کی اصل قسم کے بعد پہلے ایلفا اور پھر ڈیلٹا کو سب سے زیادہ متعدی قرار دیا گیا۔
ان اقسام میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو ان کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے اور آگے پھیلنے پر مدد فراہم کرتی ہے۔ زیادہ تر میوٹیشنز اسپائیک پروٹینز میں ہوئیں جن کو یہ وائرس خلیات میں داخلے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ وبا کے دوران ہمار ے ماہرین نے منہ کی صحت کی سائنس کو استعمال کرکے کوویڈ 19 سے متعلق متعدد سوالات کے جواب دیئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس تحقیق سے ایلفا اور ڈیلٹا اقسام کے زیادہ متعدی ہونے کے حوالے سے نئی تفصیلات دی گئی ہیں جبک مستقبل کے طریقہ علاج کے لیے فریم ورک فراہم کیا گیا ہے۔
کورونا وائرس کی بیرونی سطح اسپائیک پروٹینز سے سجی ہوئی ہے جن کو یہ وائرس خلیات سے جڑنے اور داخلے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مختلف تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا کہ کچھ کیسز میں پروٹین میں متعدد شوگر مالیکیولز کا اضافہ ہوا، یہ عمل انزائمے گلینٹس کے نتیجے میں ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں ماہرین نے فروٹ فلائی اور ممالیہ خلیات میں وائرس کے اسپائیک پروٹین میں گلینٹس سرگرمیوں کے اثرات کی جانچ پڑتال کی۔ گلینٹ ون وائرس کی اصل قسم مالیکیولز کا اضافہ کرکے اسپائیک پروٹین ک یسرگرمیوں کو محدود کرتا ہے۔
اس کے برعکس ایلفا اور ڈیلٹا جیسی اقسام کے اسپائیک پروٹینز میں ہونے والی میوٹیشنز کے نتیجے میں گلینٹ ون سرگرمیاں گھٹ گئی جبکہ دوسرے کی بڑھ گئیں۔
اس سے عندیہ ملتا ہے کہ دوسری سرگرمی نے گلینٹ ون کو جزوی طور پر دبا لیا اور اس کے نتیجے میں وہ اقسام زیادہ متعدی ہوگئیں۔ لیبارٹری میں مزید تجربات سے بھی اس خیال کو تقویت ملی اور انہوں نے مشاہدہ کیا کہ میوٹیشن والے اسپائیک پروٹین سے متاثرہ خلیات اپنے پڑوسی خلیات سے زیادہ رابطے میں رہنے لگے۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ایلفا اور ڈیلٹا میوٹیشنز نےگلینٹ ون کے اثر کو گھٹا کر خلیات میں داخل ہونے کی اپنی صلاحیت کو بڑھا لیا۔
ماہرین نے یہ بھی جانچ پڑتال کی کہ یہ اثر لوگوں میں بھی دیکھنے میں آتا ہے یا نہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے صحت مند رضاکاروں کے خلیات میں آر این اے ایکسپریشنز کا تجزیہ کیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ نظام تنفس کے اوپری اور زیریں خلیات میں گلینٹ ون کا اثر زیادہ ہوتا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ انزائمے انسانوں میں بھی اثرات مرتب کرتے ہیں، اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے۔