غزہ: اسرائیلی قانون کے خلاف گزشتہ کئی ہفتوں سے بھوک ہڑتال پر موجود فلسطینیوں کی طبیعت بگڑنے لگی اور ان کی رہائی کا مطالبہ شدت اختیار کرگیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں قید پانچ فلسطینیوں نے اسرائیلی قانون کے خلاف گزشتہ کئی ہفتوں سے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے، ان پانچ میں سے ایک قیدی 120 دنوں سے بھوک ہڑتال پر ہے جس کی حالت تشویشناک ہوگئی ہے۔
بتیس سالہ قیدی کاید فسفوس کو حالت خراب ہونے پر اسرائیل کے ایک اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، اسرائیلی ڈاکٹر امیت تیروش کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کاید فسفوس کا وزن 95 کلو گرام سے کم ہو کر 45 کلو گرام ہوگیا ہے۔
طبی معائنے کی رپورٹ کے مطابق کاید فسفوس صرف ڈیڑھ لیٹر پانی روزانہ پیتے ہیں اور ایک وقت میں تھوڑی سی چینی لیتے ہیں لیکن نمک کا استعمال بالکل نہیں کر رہے، انہیں بولنےمیں شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ یاداشت بھی متاثر ہوئی ہے، سننے میں دقت پیش آ رہی ہے اور مسلسل سر میں درد رہتا ہے۔
ڈاکٹر نے کاید فسفوس کی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حالت خطرے میں ہے، اور اگر انہوں نے بھوک ہڑتال ختم کر بھی دی تو انہیں کئی ہفتے اسپتال میں گزارنا ہوں گے۔
ان پانچ قیدیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور انتظامی حراست کی پالیسی کے خلاف مغربی کنارے اور غزہ میں کئی دنوں سے فلسطینی سراپا احتجاج ہیں۔
ادھر اسرائیل نے صحت کی بنیاد پر کاید فسوف کی نظربندی کو تو معطل کردیا ہے تاہم انہیں مغربی کنارے کے اسپتال منتقل کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔
حالیہ چند سالوں کے دوران فلسطینی قیدی انتظامی حراست کی پالیسی اور جیل میں برے حالات کے خلاف کئی مرتبہ بھوک ہڑتال کر چکے ہیں تاہم اس دفعہ صورتحال شدت اختیار کر گئی ہے۔
اسرائیل کی ’انتظامی حراست‘ پالیسی
میڈیا رپورٹ کے مطابق ان پانچوں فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل کی ’انتظامی حراست‘ کی پالیسی کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
’انتظامی حراست‘ کی پالیسی اسرائیلی حکومت کو اختیار دیتی ہے کہ مشتبہ افراد کو مہینوں سے لے کر کئی سال تک بغیر کسی ثبوت کے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ’بتسيلم‘ کے عہدیدار روئے یلین کا کہنا ہے کہ انتظامی حراست میں رکھے جانے والے قیدیوں کو اکثر شک کی بنیاد پر حراست میں لیا جاتا ہے کہ کہیں وہ اسرائیل میں کسی قسم کا حملہ نہ کر دیں۔