جمعہ, مئی 2, 2025
اشتہار

ظہیر کاشمیری اور ان کا ایک شعر

اشتہار

حیرت انگیز

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

یہ شعر تقریر سے تحریر تک ہر مشہور شخصیت نے برتا اور سیاسی و عوامی جلسوں‌ کے دوران پنڈال میں گونجا۔ ہر تحریک میں منزل کے قریب راستے کی آخری رکاوٹ کو پار کرتے ہوئے اپنا جوش و ولولہ بڑھانے کے لیے اس شعر کو پڑھا جاتا ہے یہ زبان زدِ عام شعر ظہیر کاشمیری کا ہے۔

ان کا اصل نام غلام دستگیر اور تخلّص ظہیر تھا۔ وہ 1919ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ کشمیر ان کا آبائی وطن تھا۔ انگریزی میں ایم اے کیا۔ گیارہ برس کی عمر سے شعر گوئی کی ابتدا ہوگئی تھی۔ اسی عرصہ میں ڈرامہ اور مضمون نگاری کی طرف بھی مائل ہوئے۔ تقسیمِ ہند سے قبل لاہور آگئے جہاں ابتدائی دور میں فلمی دنیا میں ادبی مشیر کی خدمات انجام دیں۔ ’’سویرا‘‘ کی ادارت بھی کی۔ فلم ’’تین پھول‘‘ کی کہانی لکھی اور خود ہی ہدایت کاری بھی کی۔

وہ ترقی پسند ادب سے وابستہ رہے اور شاعر و ادیب کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔ انھوں نے روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور میں بھی کام کیا۔ ان کی تصانیف ’عظمتِ آدم‘، ’تغزل‘، ’چراغِ آخرِ شب‘، ’رقصِ جنوں‘، ادب کے مادّی نظریے‘ کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔

حکومتِ پاکستان نے ظہیر کاشمیری کے لیے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

اردو کے اس ممتاز شاعر نے 12 دسمبر 1994ء کو دارِ فانی سے دارِ‌ بقا کا سفر اختیار کیا اور لاہور میں پیوندِ خاک ہوئے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں