جمعرات, دسمبر 26, 2024
اشتہار

رانا شمیم نے اپنا بیان حلفی عدالت میں پیش کردیا

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق چیف جج جی بی رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

اس موقع پر سابق نائب صدر پاکستان بار کونسل امجد علی شاہ عدالت پیش ہوئے، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ میں بار بار کہہ رہا ہوں یہ توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرا اور عدالت کا احتساب ہونا چاہئیے، اس عدالت سے جس نےبھی رجوع کیا اس کو ریلیف ملا، اس عدالت کا کنسرن صرف اپنے آپ کے ساتھ ہے، اس عدالت کی آزادی کے لئے آپ کا ہونا بہت ضروری ہے۔

- Advertisement -

بعد ازاں رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے، چیف جسٹس نے عدالتی معاونین کو ہدایت کی کہ وہ سیل لفافہ کہاں ہے اسے لطیف آفریدی کے حوالے کریں، لطیف آفریدی اس لفافہ کو کھولنا نہیں چاہتے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سات جنوری کو فرد جرم عائد کرنے کیلئے تاریخ مقرر کردی، چیف جسٹس اطہر من اللہ ریمارکس دیئے کہ بیان حلفی نے پورے ہائی کورٹ کو مشکوک بنا دیا۔

رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نےاپنے دلائل میں کہا کہ ابھی تک انصارعباسی، نوٹری پبلک کیخلاف کارروائی نہیں کی، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ بیان حلفی سے مستفید ہونے والا کون ہے،

جس پر وکیل نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں بیان حلفی کیوں ریکارڈ کیا اور فائدہ کس کو ہوا، رانا شمیم کو بھی اندازہ نہیں تھا بیان حلفی سے بڑا طوفان کھڑا ہوگا۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے پوچھا کہ کل کلبھوشن بیان حلفی دے دیں میرا کیس نہ چلے، تو کیا بیان حلفی پر ہم کلبھوش کا کیس روک دیں گے، یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔

عدالت نے انصار عباسی سے استفسار کیا کہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ آپ پر الزام لگایا گیا کہ رانا شمیم کی ذاتی دستاویز شائع کیں۔

انصارعباسی نے کہا کہ رانا شمیم نے نہیں بتایا کہ دستاویز ذاتی اور ناقابل اشاعت ہیں، اٹارنی جنرل نے تمام فریقین پر فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کردی اور کہا کہ رانا شمیم کیس میں توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔

قبل ازیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ 7دسمبر کو حکم دیا گیا تھا کہ رانا شمیم اصل بیان حلفی عدالت پیش کریں، عدالتی حکم کے مطابق لفافے کو صرف رانا شمیم ہی کھولیں گے اور رانا شمیم بتائیں گے کہ بیان حلفی کس طرح لیک ہوا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا کرتے ہیں کہ یہ سیل لفافہ نہ آپ نہ کھولیں نہ رانا شمیم کھولیں، ایڈووکیٹ جنرل کو کہتے ہیں کہ وہ اس سیل شدہ لفافہ کو کھولیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے یہ کہا تھا کہ بیان حلفی رانا شمیم خود پیش کریں یہ نہیں کہا تھا کہ سیل شدہ لفافہ بھیجیں، آپ نے کہا تھا کورئیر سروس سے بھیجا وہ ان ہی کا سیل شدہ لفافہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پہلی کورئیر سروس کی ڈلیوری تھی جسے میں نے وصول کیا، خیال کریں کہ کہیں بیان حلفی کو نقصان نہ پہنچ جائے۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ نے رانا شمیم سے مکالمہ کیا کہ یہ آپ کی امانت ہے جو ہم تک پہنچ گئی، رانا شمیم نے جواب دیا انہوں نے سیل شدہ لفافہ نواسے کو دیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورئیر سروس کو دینے سے پہلے یہ ایک اوپن بیان حلفی تھا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ رانا شمیم کیا یہ بیان حلفی آپ کا ہی ہے اور آپ نے سیل کیا تھاَ؟ جس پر رانا شمیم نے جواب دیا کہ جی ہاں یہ میرا ہی بیان حلفی اور لفافہ ہے۔

ٹارنی جنرل نے ہائیکورٹ سے استدعا کی کہ یہ بیان حلفی میں بھی دیکھوں فونٹ تو اس کا کیلبری ہے، اس کی کاپی ہمیں مہیا کی جائے۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ اس بیان حلفی کو اب ہم کہاں رکھیں تو اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ اسے اب آپ اپنی ہی تحویل میں رکھیں گے، بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیان حلفی کو دوبارہ سیل کرنے کا حکم دے دیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں