ویسے تو تمباکو نوشی سخت خطرات اور نقصانات کی حامل لت ہے تاہم حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ اس کے منفی اثرات آنے والی نسلوں پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔
حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا کہ ایسی خواتین اور لڑکیاں جن کے دادا یا پردادا نے کم عمری میں تمباکو نوشی کا آغاز کیا ہوتا ہے، ان کی جسمانی چربی زیادہ ہوسکتی ہے۔
اس سے قبل تحقیق کے ابتدائی نتائج میں دریافت کیا گیا تھا کہ اگر والد تمباکو نوشی کا آغاز بلوغت سے قبل کرے تو اس کے بیٹوں میں توقع سے زیادہ جسمانی چربی ہوتی ہے۔
اب ماہرین کا ماننا ہے کہ دادا یا پردادا کا 13 سال کی عمر سے قبل تمباکو نوشی کرنا خواتین کے جسم میں چربی میں اضافے کی وجہ بنتا ہے، البتہ آنے والی نسلوں کے لڑکوں میں ایسا اثر دریافت نہیں ہوا۔
تحقیق میں ایسے اثرات کا عندیہ دیا گیا جو آنے والی نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
برسٹل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں آنے والی نسلوں میں منتقل ہونے والی اثرات کے ممکنہ تعلق کو دریافت کیا گیا جس کی توقع سائنسدانوں کو 1991 میں تحقیق کے آغاز کے وقت نہیں تھی۔
تحقیق کے آغاز میں 14 ہزار حاملہ خواتین کو شامل کیا گیا تھا جو اب دادی یا نانی بھی بن چکی ہیں۔
تحقیق کے دورانیے کے دوران سائنسدانوں نے کافی کچھ معلوم کیا جیسے 20 سال پہلے انہوں نے دریافت کیا کہ حمل کے دوران جو خواتین چربی والی مچھلی کھاتی ہیں چاہے 2 ہفتے میں ایک بار، ان کے بچوں کی بینائی تیز ہوتی ہے۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ جب دریافت کیا کہ حمل کے دوران ماں کی غذا کا تعلق بچوں کی بینائی بننے کے عمل سے بھی ہوتا ہے۔
تحقیق کے مزید نتائج 2013 میں جاری کیے گئے جن میں بتایا حمل کے دوران آیوڈین کی کمی سے بچوں کی ذہنی نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس نئی تحقیق میں محققین نے دادا اور پردادا میں تمباکو نوشی کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی مگر دادی یا پردادی وغیرہ میں اس لت کا تجزیہ نہیں کیا گیا۔
محققین نے بتایا کہ تحقیق سے 2 اہم نتائج سامنے آئے، پہلا یہ کہ بلوغت سے قبل کسی لڑکے کا تمباکو نوشی کو اپنانا آنے والی نسلوں پر اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
دوسرا نتیجہ یہ تھا کہ بچوں کے فربہ ہونے کی وجہ موجودہ غذا اور ورزش نہ ہو بلکہ ان کے دادا پردادا کا طرز زندگی ہو، جس کا تسلسل برسوں تک برقرار رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جانوروں میں تجربات میں اس طرح کے اثرات ثابت ہوچکے ہیں مگر انسانوں میں اس کی موجودگی کے بارے میں شبہات موجود ہیں۔