تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

بھارتی انتہا پسندوں نے "مُسکان” کیخلاف پروپیگنڈا شروع کردیا

بھارتی ریاست کرناٹک میں ایک کالج میں زعفرانی رنگ کا مفلر پہنے انتہا پسند طالب علموں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوجانے والی بہادر لڑکی مسکان کے خلاف ملک بھر میں بائیں بازو کی جماعتوں کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ جاری ہے۔

بھارتی مسلمان طالبہ مسکان اس وقت سوشل میڈیا پر مزاحمت کی علامت بن کر ابھری ہیں اور انہیں دنیا بھر سے داد و تحسین موصول ہو رہی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ صارفین کے مطابق مخالفین نے ان کی کردار کشی کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کا سہارا لیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ان کی مخالفت کرنے والوں کی جانب سے گذشتہ دو دنوں سے مختلف تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں جس کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ مسکان صرف تعلیمی ادارے میں حجاب پہنتی ہیں جبکہ کالج سے باہر ان کا حلیہ مختلف ہوتا ہے۔

کریٹ لی ڈاٹ ان نامی اکاؤنٹ کی جانب سے ایک ایسی ہی تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی گئی جس میں دو تصاویر کو ساتھ جوڑا گیا۔

اس پوسٹ میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ایک تصویر میں لڑکی جینز اور شرٹ پہنے ہوئے نظر آرہی ہیں اور دوسری میں مسکان کالج میں احتجاج کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔

اس اکاؤنٹ کا دعویٰ یہ ہے کہ مسکان جو دراصل جینز پہنتی ہیں وہ حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے کالج میں خصوصی طور پر حجاب پہن کر آئیں تھیں۔

ایسی ہی تصاویر فیس بک پر بھی شیئر کی گئیں اور دعویٰ کیا گیا کہ مسکان دراصل کرناٹک حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہیں اور انہیں ایسا کرنے کے لیے پیسے بھی مل رہے ہیں۔

یہی تصویر سوشل میڈیا پر سینکڑوں لوگوں کی جانب سے شیئر کی گئی لیکن انڈیا کی ہی ایک "فیکٹ چیک” ویب سائٹ کے مطابق یہ تصاویر دو مختلف لڑکیوں کی ہیں۔

ان میں سے ایک مسکان ہیں اور دوسری کرناٹک کی سیاسی جماعت "جنتا دل سیکولر” کی رکن نجمہ نظیر کی ہیں۔ فیکٹ چیک ویب سائٹ کے مطابق نجمہ نظیر نے اس بات کی خود تصدیق کی ہے کہ مسکان کے ساتھ جوڑی جانے والی تصویر دراصل ان ہی کی ہے۔

نجمہ نظیر کی جس تصویر کو مسکان سے جوڑا جا رہا ہے وہ انہوں نے خود 13 مئی 2018 کو اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر پروفائل پکچر کے طور پر لگائی تھی۔

دوسری جانب کرناٹک کے مختلف شہروں میں حکام نے حجاب کے حق میں ہونے والے مظاہروں پر پابندی عائد کرنا شروع کر دی ہے۔

میسور کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس نے "ٹائمز آف انڈیا” کو بتایا کہ شہر میں جمعے کو احتجاج کی اجازت مانگی گئی تھی تاہم انہوں نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔

واضح رہے کہ کرناٹک میں مقامی حکومت نے تعلیمی اداروں میں طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور اس پابندی کے خلاف احتجاجی مظاہروں نے پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

Comments

- Advertisement -