امریکا میں حال ہی میں ایک اہم تحقیقی مطالعے کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ لانگ کووِڈ یعنی کرونا وائرس کی بیماری کی طویل مدت علامات سے نجات کا ایک آسان حل بھی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر کرونا مریضوں میں دیکھا گیا ہے کہ بیماری ختم ہونے کے بعد بھی انھیں طویل المیعاد علامات کا سامنا ہوتا ہے، جسے لانگ کووڈ کہتے ہیں۔
پینینگٹن بائیومیڈیکل ریسرچ سینٹر کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر روزمرہ کے معمولات میں چہل قدمی یا ورزش کو معمول بنا لیا جائے تو لانگ کووِڈ سے منسلک علامات یعنی ڈپریشن اور ذیابیطس کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔
طویل مدت کی علامات میں ذہنی صحت متاثر ہونے کے علاوہ انسولین کی سطح متاثر ہونا بھی شامل ہے، جس سے خون میں شوگر بڑھ جاتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے ایکسرسائز اینڈ اسپورٹس سائنس ریویوز میں شائع ہوئے ہیں، محققین نے لکھا کرونا بیماری کے باعث بننے والی جسمانی سوزش سے کچھ مریضوں میں طویل مدت علامات پیدا ہوتی ہیں، اس سے ورم اور تناؤ کا ایسا سائیکل بنتا ہے جو خلیات کے افعال روک دیتا ہے، اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسمانی سرگرمیوں سے اس سائیکل کی روک تھام ہو سکتی ہے، جس سے کووڈ سے جڑے ڈپریشن اور ذہنی بے چینی یا گھبراہٹ میں کمی آ سکتی ہے۔
محققین نے بتایا کہ تناؤ، مدافعتی ردِ عمل، ورم یا سوزش اور انسولین کی حساسیت کے سلسلے میں ورزش مثبت اثرات مرتب کرتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلے ثابت ہو چکا ہے کہ کم شدت والی ورزشیں جیسا کہ چہل قدمی سے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے اور انسولین کی حساسیت بحال ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایروبک ورزشیں انسولین کی حساسیت کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ اچھی سمجھی جاتی ہیں تو دوسری طرف دوڑنا، سائیکل چلانا یا چہل قدمی ذہنی تناؤ کے حوالے سے زیادہ مددگار ہو سکتے ہیں۔ ماہرین نے بتایا کہ دن بھر میں 30 منٹ کی معتدل چہل قدمی کرنا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔