آپ کو یہ جان کر سخت حیرت ہوگی کہ کیچپ سب سے پہلے ایک دوا کے طور پر متعارف ہوا تھا۔
یقیناً یہ خبر آپ کے لیے حیران کن ہوگی کہ کیچپ بطور دوا متعارف ہوا تھا، یہ نسخہ امریکی ریاست اوہائیو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جان کک بینیٹ (John C. Bennett) نے 1830 میں دریافت کیا تھا۔
آج کی دنیا میں خود کو صحت یاب کرنے کے لیے کیچپ کا استعمال مضحکہ خیز لگتا ہے، لیکن یہ معاملہ 1830 کی دہائی میں ایسا نہیں تھا، بلکہ جب ٹماٹو کیچپ بطور دوا متعارف ہوا تو اس نے امریکا کی ہیلتھ انڈسٹری میں ایک ہلچل مچا دی تھی۔
ڈاکٹر بینیٹ نے اپنے تیار کردہ کیچپ کی تشہیر ایک ایسی دوا کے طور پر کی جس سے اسہال، یرقان، بدہضمی اور گٹھیا کا علاج ممکن تھا۔
اس سے پہلے کیچپ مشروم یا مچھلی سے بنایا جاتا تھا اور ٹماٹر کو زہریلا سمجھا جاتا تھا۔ یہ 1834 کی بات ہے جب ڈاکٹر جان کوک بینیٹ نے کیچپ میں ٹماٹر بھی شامل کر دیے اور یوں یہ سترہویں صدی کی سب سے مقبول دوا بن گئی۔
کچھ ہی عرصے بعد ڈاکٹر بینیٹ نے وسیع پیمانے پر ٹماٹو کیچپ کی ترکیبیں شائع کرنا شروع کر دیں، جنھیں گولیوں کی شکل میں بھی بنایا گیا۔
ٹماٹر کے اضافے کا مقصد وٹامنز اور اینٹی آکسیڈنٹس کی بڑی مقدار کو اس میں شامل کرنا تھا۔ آج جو ہم کیچپ کو کئی ڈشز کے ساتھ لوازم کے طور پر استعمال کرتے ہیں، 19 ویں صدی کے آخر تک اس کی مقبولیت کی وجہ اس سے بالکل ہی مختلف تھی۔
بینیٹ نے دعویٰ کیا کہ اس نے ٹماٹر پر تحقیق کی ہے اور پتا چلا ہے کہ یہ اسہال، ہیضہ، یرقان، بدہضمی اور گٹھیا سمیت کئی بیماریوں کا علاج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بینیٹ نے لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ ٹماٹروں کو چٹنی میں پکائیں تاکہ پھل کی شفا بخش خصوصیات سے فائدہ اٹھایا جا سکے، ان کی تحقیق کو تمام بڑے امریکی اخبارات میں بڑے پیمانے پر شائع کیا گیا تھا۔
الیگزینڈر مائلز
اوہائیو میں 1838 میں پیدا ہونے والے یہ حضرت ایک مشہور مؤجد اور کاروباری شخصیت تھے، انھوں نے لفٹ کا خودکار دروازہ بنایا تھا، انھوں نے ٹماٹروں پر بینیٹ کی تحقیق کو دیکھا۔
اس وقت، مائلز ‘امریکن ہائیجین پِل’ نامی ایک پیٹنٹ دوا فروخت کر رہے تھے، جب بینیٹ اور مائلز کا آپس میں رابطہ جڑا تو انھوں نے اس گولی کو ‘ٹماٹر کے عرق’ میں تبدیل کر دیا۔
اس نے ٹماٹر کے جنون کو اتنا بڑھا دیا کہ ملک میں ایک ہلچل مچ گئی، مائلز نے اپنے ٹماٹر کے عرق کی بہت زیادہ تشہیر کی جو مائع اور گولی دونوں شکلوں میں فروخت ہوتی تھی۔