جب کوثرؔ پہلے پہلے ہمارے گھر آئی تو دروازے میں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ میں بیٹھا لکھ رہا تھا۔ رضیہ امی کے پاس بیٹھی تھی۔ منو اور چمن، شمو کے ساتھ کھیل رہے تھے۔
کوثر نے ایک بار اندر جھانک کر دیکھا، پردے کی سرسراہٹ پر میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا اور وہ پیچھے ہٹ گئی۔ میں پھر لکھنے لگا۔
اس نے پھر جھانکا۔ رضیہ اب بھی امی کے پاس بیٹھی تھی۔ منو اور چمن آپس میں لڑ رہے تھے اور شمی کھڑی منہ بسور رہی تھی۔ پردہ پھر ہلا۔ میں نے لکھتے لکھتے پھر نگاہ اٹھائی، کوثر پھر ہٹ گئی۔ اس بار میں تیزی سے اٹھ کر پردے کی آڑ میں جاکر کھڑا ہوگیا اور اس بار جونہی اس نے اندر جھانکا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر گھسیٹ لیا۔
’’رضیہ‘‘ کوثر کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ ’’ارے کوثرؔ تم ‘‘ رضیہ اٹھ کر آئی۔ کوثر اجنبیوں کی طرح چھپی چھپی سی کھڑی تھی۔
’’ہوں تو تم رضیہ کے پاس آئی ہو، چوروں کی طرح کیوں جھانک رہی تھیں؟‘‘
’’میں نے اس سے کہا اور اس نے جھینپ کر رضیہ کی پیٹھ کے پیچھے منہ چھپا لیا۔ اس طرح وہ پہلے روز ہمارے یہاں آئی۔ وہ رضیہ کے ساتھ پڑھتی تھی۔ پھر وہ ہر روز گھر آنے لگی اور پھر گھر کے دوسرے بچوں کی طرح حرکتیں بھی کرنے لگی۔
’’بھائی صاحب! یہ قلم مجھے دے دیجیے نا؟ اور یہ پھول جو گلدان میں لگا ہے مجھے بہت پسند ہے۔ ’’ایک روز سیدھی میرے پاس چلی آئی۔ ’’بھائی صاحب! آپ نے برتن بنانے کا کارخانہ دیکھا ہے؟
اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’ہاں ہاں اپنے زاہد خالو کا جو کارخانہ ہے۔‘‘
’’تو پھر آپ نے ان کارخانوں کے منشی بھی ضرور دیکھے ہوں گے؟‘‘ ارے ہاں بھئی یہ اپنے برابر میں منشی مجیب صاحب رہتے ہیں۔‘‘
’’بس تو پھر میری بات مانیے اور یہ کہانیاں وہانیاں لکھنی چھوڑ کر کسی کارخانہ کی منشی گیری شروع کر دیجیے۔
میں نے اسے گھورا۔
’’آپ کی کتنی ہی کہانیاں پڑھی ہیں سب ایک ہی جیسی ہیں۔ کسی میں شرارتیں، کسی میں حلوہ کی چوری، کسی میں بھائی بہن کی لڑائی آخر آپ لکھتے کیا ہیں؟
’’کوثر‘‘ میں نے اسے آہستہ سے ڈانٹا۔
’’نہیں نہیں بھائی صاحب، ایک بات… ’’کوثر نے کچھ اس انداز سے کہا کہ باوجود غصے کہ ہنسی آگئی۔‘‘
’’دیکھیے نا کہانیوں سے تو ہمیں تعلیم ملتی ہے۔ ہمارے کورس کی کتابوں میں بھی کتنی ہی کہانیاں ہیں۔ کسی سے سبق ملتا ہے چوری مت کرو۔ کسی سے ہم سیکھتے ہیں دوسروں کو مت ستاؤ مگر آپ ہیں کہ چوری کی ترغیب دیتے ہیں۔ شرارتوں کی ترکیب بتاتے ہیں، میرے اچھے بھائی صاحب۔ ایسی کہانیاں مت لکھیے۔ آپ تو بہت اچھا لکھتے ہیں، کتنے ڈھیر سارے خط آتے ہیں، آپ کی کہانیوں کی تعریف میں، بڑے بڑے رسالوں میں آپ کی کہانیاں چھپتی ہیں، مگر آپ کی بچوں کی کوئی بھی کہانی ایسی ہے جس پر کسی نے آپ کو خط لکھا ہو۔ آخر ہم بچوں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ الٹی سیدھی کہانیاں ہمارے لیے لکھتے ہیں۔‘‘
میں کوثر کو دیکھتا رہ گیا۔ وہ بولے چلی جارہی تھی۔ گیارہ بارہ برس کی آٹھویں جماعت میں پڑھنے والی لڑکی کس قدر تیز اور کسی لیڈر کی طرح تقریر کیے جارہی تھی۔
’’کوثر…‘‘ میں نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’پگلی! آج کل کے بچے بھی تو ایسی ہی کہانیاں پسند کرتے ہیں۔ ورنہ پھر ان رسالوں کے مدیران کو کیا پڑی ہے کہ وہ کہانیاں شائع کریں۔‘‘
’’بھائی صاحب! ان ایڈیٹروں کی بھی ایک ہی کہی….. دینا دلانا تو کچھ ہوتا نہیں۔ ایک دو کہانیاں یوں ہی بھرتی کی چھاپ دیں۔ اس سے ان حضرات کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ’’وہ بولی۔
’’اچھا بڑی بی! آپ کی نصیحت سر آنکھوں پر، ایسی ہی کہانیاں لکھوں گا جن کو پڑھ کر بچے اچھی باتیں سیکھ سکیں۔ اب تو خوش۔‘‘
’’ویسے آپ کہانیاں بہت اچھی لکھتے ہیں۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔ ’’خوشامدی کہیں کی، لو چلو بھاگو، میں نے ایک رسالہ اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا اور وہ رضیہ کے پاس چلی گئی۔
اس کے جانے کے بعد میں کافی دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ انتہائی ذہین بچی ہے۔ کتنی سمجھداری کی باتیں کرتی ہے، ضروراپنے درجہ میں اوّل آتی ہوگی اور پھر میں نے طے کر لیا کہ اب بچوں کے لیے جو بھی کہانی لکھوں گا وہ سبق آموز ہوگی۔ صرف تفریح ہی تو مقصد نہیں ہے۔
اچانک کوثر کئی دن ہمارے یہاں نہیں آتی۔ مصروفیت کے سبب میں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ آج خیال آیا تو میں نے رضیہ سے معلوم کیا۔ ’’ارے بھئی رضوؔ ! یہ تمہاری کوثر بی آج کل کہاں غائب ہیں؟‘‘
’’بھائی صاحب! ایک روز رات میں اسٹول سے گر پڑی، کافی چوٹ آئی ہے، اسکول بھی نہیں آرہی ہے، آج اسے دیکھنے جاؤں گی۔‘‘
’’ارے ہمیں تو خبر ہی نہیں بڑی اچھی لڑکی ہے۔‘‘
شام کو رضیہ کے ساتھ میں بھی اسے دیکھنے چلا گیا۔ کوثر کی والدہ کو ہم خالہ جان کہتے ہیں۔ وہ کوثر کو دوا دے رہی تھیں۔ اس کے ایک ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔
’’کیوں بھئی بڑی بی! تمہیں کافی چوٹ آئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’حرکتیں ہی ایسی کرتی ہے۔‘‘ خالہ جان کوثر کو گھور کر بولیں۔
’’جی۔‘‘ میں نے ایک بار کوثر کو اور پھر خالہ جان کو دیکھا۔ ’’کیا بتاؤں شوکی بیٹے! یہ لڑکی اتنی شریر ہے کہ ناک میں دم کردیا ہے۔
’’امی!‘‘ کوثر کمزور آواز میں مچل کر بولی۔
’’کیا بتاؤں نہیں؟ ارے بیٹے ہوا یہ کہ راشد کے تایا میاں نے دہلی سے سوہن حلوہ بھجوایا تھا دونوں کو برابر برابر دے دیا۔
راشد میاں مچل گئے اور لگے رونے، ضد کرنے کہ ان کا حصہ کم ہے۔‘‘
’’کم تھا تو آپ نے بجیا کو زیادہ دیا تھا۔ ’’ قریب کھڑا ہوا راشد بولا۔
’’تھا زیادہ تمہارا سر، کہیں اچھے بچے ایسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘ خالہ جان نے راشد میاں کو جھڑک دیا۔
’’ہاں تو پھر یہ ہوا کہ جب خوب روئے تو ہم نے کوثر سے کہا تم بڑی ہو اپنے حصے میں سے تھوڑا انہیں اور دے دو۔‘‘
’’تھوڑا سا، سب تو لے لیا تھا اوں۔‘‘ لیٹے لیٹے کوثر بی۔
’’بڑا احسان کیا تھا شرم نہیں آتی۔‘‘ خالہ نے اسے بھی جھڑک دیا۔ ’’جی پھر‘‘ میں نے مسکرا کر کوثر کی طرف دیکھا۔ خالہ جان آگے سنانے لگیں، ’’کوثر نے اپنا حلوہ کھا کر برابر کردیا۔ راشد میاں ذرا کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ ایک ایک دانہ سنبھال کر رکھا۔ رات کو میز پر ڈبّہ لے کر سو گئے۔ ہم نے اٹھا کر کارنس پر رکھ دیا۔ خدا جانے یہ جاگ رہی تھی، ہم تو سمجھے کہ سوگئی ہے، جب بتی وغیرہ بند کر دی تو یہ بی اٹھ کر اسٹول پر چڑھیں۔ دیکھو نا یہ کارنس بہت اونچا ہے اسٹول پر کرسی رکھی، بس گر پڑیں۔‘‘
’’چوری کر رہی تھیں، ماشاء اللہ۔‘‘ میں مسکرایا۔
’’اب تم ہی دیکھو۔‘‘ ’’خالہ جان کمرے سے ہم لوگوں کے لیے چائے بنانے چلی گئیں۔ اب تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کوثر کا کیا حال تھا۔ لاکھ کہنے پر بھی اس نے اپنا منہ چادر سے باہر نہیں نکالا۔
اور اب یہ کہانی لکھ چکنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ وہ اس کہانی سے کیا سبق لے گی حالانکہ یہ اس کی اپنی کہانی ہے اور بالکل سچی ہے۔
(مصنّف: شکیل انور صدیقی)