اسلام آباد : آرٹیکل 63اےکی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پرسپریم کورٹ میں سماعت کی گئی، چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں5رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کو لاہور سے روانگی میں تاخیر ہوگئی ہے، اشتر اوصاف لاہور سے اسلام آباد اسلام آباد آرہے ہیں3 بجے تک پہنچ جائیں گے۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا کہ اٹارنی جنرل آرہے ہیں یا جارہے ہیں، یہ سنتے ہوئے 2ہفتے ہوگئے ہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے کوئی اور تاثر ملے، اٹارنی جنرل نے پیر کو دلائل میں معاونت کی بات خود کی تھی، مخدوم علی خان کو بھی آج دلائل کیلئے پابند کیا تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابھی ہمیں اطلاع ملی ہے مخدوم علی خان بیرون ملک سے وطن واپس نہیں آئے، یہ دونوں وکلاء صاحبان ایک فریق کے وکیل ہیں، ایک سرکار کے وکیل ہیں دوسرے سیاسی جماعت کے نجی وکیل ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب لگتا ہے کہ آپ اس معاملےمیں تاخیر کرناچاہتے ہیں، ساڑھے 11بجے دیگر مقدمات پس پشت ڈال کر سماعت کے لیے کیس مقرر کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63اے کا فیصلہ دینا چاہتے ہیں، یہ اہم ایشو ہے، اٹارنی جنرل 3بجے پہنچ رہے ہیں تو 4بجے تک سن لیتے ہیں، رات تاخیر تک اس مقدمے کو سننے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ خدمت کا کام ہے ہم کرنا چاہتے ہیں، عدالت تو رات تاخیر تک بیٹھی ہوتی ہے، عدالت تو 24گھنٹے دستیاب ہے، اٹارنی جنرل کو 3بجے سن لیں گے۔
معاون وکیل سعد ہاشمی نے کہا کہ مخدوم علی خان 17مئی کو وطن آپس آجائیں گے، وہ بیرون ملک کسی مقدمے کی سماعت میں مصروف ہیں،18مئی کے بعد ہوسکتا ہے بینچ دستیاب نہ ہو۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ لارجر بینچ پورا ہفتہ دستیاب ہے، معذرت کےساتھ مخدوم علی خان نے مایوس کیا ہے، مخدوم علی خان بڑے وکیل ہیں، وہ تحریری طور پر بھی دلائل دے سکتے ہیں۔