روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پر عالمی بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
مغربی میڈیا کے مطابق یوکرین کی غلہ پیدا کرنے اور برآمد کرنے کی صلاحیت پر روسی حملوں نے دنیا کی ‘روٹی کی باسکٹوں میں سے ایک’ کو توڑ کر رکھ دیا ہے، جس سے خوراک کے عالمی بحران کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔
اس صورت حال میں مغرب کی جانب سے ان الزامات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ صدر ولادیمیر پیوٹن اپنی 3 ماہ کی جنگ میں خوراک کو ایک طاقت ور نئے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
عالمی رہنماؤں نے منگل کے روز یوکرین میں پھنسے ہوئے 20 ملین ٹن اناج کی فراہمی کے لیے، بین الاقوامی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ پیش گوئی کی ہے کہ اگر اس اناج کی ترسیل نہ ہو سکی تو کچھ ممالک میں بھوک اور کچھ ممالک میں سیاسی بدامنی سر اٹھا سکتی ہے۔
ڈیووس، سوئٹزرلینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم میں مقررین کا کہنا تھا کہ یہ روس کا اپنے پڑوسی پر حملے کا اب تک کا سب سے بڑا عالمی نتیجہ ہو سکتا ہے، اس فورم پر روس یوکرین جنگ کے نتائج کے بارے میں خدشات نے تقریباً ہر دوسرے مسئلے کو ایک طرف کر دیا ہے۔
یوکرین جنگ فیصلہ کن موڑ پر، روس نے اہم یوکرینی علاقے کا محاصرہ کر لیا
اقوام متحدہ کی ایجنسی ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی نے کہا کہ ‘یہ ایک زبردست طوفان کے اندر ایک اور زبردست طوفان کی طرح ہے’ ، انھوں نے صورت حال کو انتہائی نازک قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اس سے دنیا بھر میں قحط پڑ جائے گا۔
واضح رہے کہ دنیا کا خوراک کی تقسیم کا نیٹ ورک پہلے ہی وبائی امراض سے متعلق رکاوٹوں کی وجہ سے تناؤ کا شکار تھا، اب یوکرین سے برآمدات جنگ کی وجہ سے تقریباً ختم ہو گئی ہیں، جب کہ یوکرین دنیا کے سب سے بڑے سپلائرز میں سے ایک ہے، روس نے ملک کی بحیرۂ اسود کی کچھ بندرگاہوں پر قبضہ کر لیا ہے اور باقی کی ناکہ بندی کر دی ہے، جس کی وجہ سے مکئی، گندم، سورج مکھی کے بیج، جو اور جئی سے لدے کارگو جہاز پھنس چکے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق روسی افواج نے ایک طرف یوکرین کی سب سے زیادہ پیداواری کھیتی باڑی کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، دوسری طرف جنگ میں یوکرین کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے، جو اناج کی پیداوار اور ترسیل کے لیے ضروری ہے، یوروپی یونین کی ایگزیکٹو برانچ کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے ڈیووس میں جمع ہونے والے سیاسی اور کاروباری رہنماؤں کو بتایا کہ روس جو یوکرین سے بھی بڑا برآمد کنندہ ہے، نے یوکرین کے اناج کے ذخیرے اور زرعی مشینری کو ضبط کر لیا ہے۔
انھوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ روس اب بلیک میلنگ کے طور پر اپنی خوراک کی برآمدات کو ذخیرہ کر رہا ہے، اور عالمی قیمتوں میں اضافے کے لیے سپلائی روک رہا ہے، یا سیاسی حمایت کے بدلے گندم کی تجارت کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ اب یوکرین میں لڑائی تیزی سے مشرقی یوکرین کے ڈونباس علاقے کی ایک چھوٹی سے ٹکڑے میں مرکوز ہو رہی ہے، جہاں روی افواج سست مگر خونی پیش رفت کر رہی ہیں، جب کہ اسٹریٹجک لحاظ سے اہم شہر سیویروڈونسک کو تین اطراف سے گھیر کر محاصرے میں لے لیا ہے۔
شہر کے اندر، جو کبھی ایک صنعتی مرکز تھا، روسی توپ خانے سے ہونے والی تباہی ہر سڑک پر ٹوٹی پھوٹی عمارتوں، جلی ہوئی گاڑیوں اور گڑھوں سے بھری سڑکوں کی صورت میں عیاں ہے۔