لاہور : لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے حمزہ شہبازکے انتخاب سے متعلق کیس کا فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے ، عدالت نے ریمارکس دیئے اگر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ماضی سے ہوگا تو فوری احکامات جاری کریں گے۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں حمزہ شہباز کے حلف برداری فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی ، جسٹس صداقت علی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربینچ نے سماعت کی۔
صدر مملکت کی جانب سے احمد اویس اور حمزہ شہباز کی جانب سے منصور اعوان ایڈوکیٹ پیش ہوئے۔
عدالت نے احمد اویس کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ سنگل بنچ نےصدر اور گورنر سےمتعلق ریمارکس دیےاس پر کچھ کہنا چاہیں گے ، فرض کریں حلف برداری کاحکم کالعدم قرار دیں توصدر کےخلاف ریمارکس کا کیا بنے گا۔
عدالت نے اویس احمد سے استفسار کیا کہ کیا ہمیں یہ ریمارکس بھی کالعدم قرار دینا ہو گا یا وہ غیر موثر ہو جائیں گے، جس پراحمد اویس نے بتایا کہ آپ کو ان ریمارکس کو کالعدم قرار دینا ہو گا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس وقت کے گورنر سےمتعلق عدالت نے ریمارکس دیے ، عدالت نے ریمارکس دیے گورنر نے آئینی ذمےداری پوری نہیں کی ، جس پر احمد اویس نے کہا کہ گورنر فریق نہیں تھے انھیں سنے بغیر کیسے ریمارکس دیے جا سکتے ہیں۔
جسٹس شاہد جمیل نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے دو معاملات ہیں ،ایک یہ کہ سپریم کورٹ کےفیصلے کا کیسے اطلاق ہوتا ہے وزیراعلیٰ کےالیکشن پر ،دوسرا یہ ہے کہ ہائی کورٹ نےالیکشن کرانےکاحکم دیا جس میں بے ضابطگیاں ہوئیں۔
وکیل احمد اویس نے کہا کہ صدر پاکستان ریاست کا سربراہ ہے ، صدر کے خلاف ریمارکس کو کالعدم قرار دیں، جس پر جسٹس ساجد محمود کا کہنا تھا کہ جب صدر کوسنا ہی نہیں گیا تو پھ ران کے بارے میں ریمارکس کیسے دے سکتے ہیں۔
وکیل تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق مارچ سے ہوگا ، جس پر جسٹس شاہد جمیل کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز کے وکیل آج ہمارے چند سوالات کا جواب دیں گے، جس پر حمزہ شہباز نے کہا کہ میں جوابات دینے کے لیے تیار ہوں۔
جسٹس شاہد جمیل نے کہا کہ ڈی سیٹ ہونے والےاراکین کاریفرنس بھیج دیا گیا ، سپریم کورٹ میں معاملہ زیر سماعت تھا ،وزیر اعلیٰ کا الیکشن ہوا ، سپریم کورٹ کافیصلہ آیا ہم اس فیصلے کو کیسے نظر انداز کردیں ، فیصلہ ماضی پر اطلاق کرتا ہے آپ اس پوائنٹ پر معاونت کریں۔
وکیل حمزہ شہباز نے بتایا کہ تحریری دلائل میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے دیے ہیں ، سپریم کورٹ کے فیصلے مستقبل کے کیسز پر لاگو ہوئے، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ آپ سپریم کورٹ میں جا کر اس فیصلے پر نظر ثانی کرائیں۔
عدالت نے کہا کہ مارچ میں سپریم کورٹ کو 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس بھجوایا گیا ، وزیر اعلیٰ کا انتخاب 16 اپریل کو ہوا، اگر ہم کہتے ہیں آج نیا الیکشن کروا دیں، دوسرا اگر ہم کہیں 25 ووٹ نکال کر الیکشن کروادیں، متعدد ممبران نے وہاں بائیکاٹ بھی کیا انتخاب کا، منصور اعوان صاحب ہمیں متاثر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی تشریح موجودہ حالات میں لاگو ہوگی ، اگر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فیصلے کا اطلاق ماضی سے ہوگا تو فوری احکامات جاری کریں گے ، مخصوص نشستوں کا نوٹی فکیشن جاری ہوتا ہے یا نہیں یہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں ، ہم الیکشن اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمددیکھ رہے ہیں۔
عدالت نے وکیل پی ٹی آئی سے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ بھی اس پر اپنی رائے دیں، جس پر علی ظفر نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون ہر 6ماہ بعد تبدیل ہو جائے، 62اے کی تشریح آئی کہ پارٹی کےخلاف ووٹ دینےوالےکاووٹ شمارنہیں ہوگا۔