بیجنگ: چین میں ایسی روبوٹک ناک تیار کرلی گئی جو سونگھ کر کسی شخص میں بیماریوں کا پتہ لگا سکے گی۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چین کی سنگوا یونیورسٹی کے سائنس دان بیماریوں کی تشخیص کے لیے ایسی تکنیک پر کام کر رہے ہیں جس سے سانس، پسینہ، آنسو اور جسم سے خارج ہونے والے دیگر مواد میں موجود کیمیائی مادوں کو سونگھ کر بیماریوں کا پتہ لگایا جا سکے گا۔
جب بھی کسی پرفیوم یا پھول کی خوشبو کو سونگھا جاتا ہے یا سانس کے ذریعے آلودگی ناک میں جاتی ہے تو در اصل جسم غیر مستحکم حیاتیاتی مرکبات کو محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ یہ مرکبات وہ کیمیکل ہوتے ہیں جن کا نقطہ ابال کم ہوتا ہے لہٰذا وہ جلدی بخارات بن جاتے ہیں۔
تمام حیاتیاتی اشیا متعدد مقاصد کے لیے قصداً یہ مرکبات خارج کرتے ہیں جن میں دفاع، مواصلات اور افزائشِ نسل جیسے امور شامل ہیں۔
لیکن یہ مرکبات تمام حیاتیاتی عملیات کے طور پر ویسے بھی خارج ہوتے رہتے ہیں جس میں بیماری کی شناخت شامل ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہر بیماری کا ایک مخصوص مرکب ہوتا ہے جو اس کی تشخیص کا سبب بن سکتا ہے۔
بیماریوں سے متعلق یہ مرکبات لوگوں کو اپنے حوالے سے علم ہونے سے کافی عرصہ پہلے سے خارج ہو رہے ہوتے ہیں اور مرکبات کا یہ اخراج ڈاکٹروں کی جانب سے بلڈ ٹیسٹ یا دیگر تشخیصی تکنیک کے استعمال سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔
وولیٹو لومکس نامی اس خیال کو لیبارٹری سے مارکیٹ تک لانے میں کئی ایسے شعبہ جات کو اکٹھا کام کرنا ہوگا جو آپس میں ذرا سی بھی مطابقت نہیں رکھتے۔
کئی بڑی بیماریوں کی تشخیص جتنی جلدی ہوجائے ان کا علاج اتنا آسان ہوتا ہے، لہٰذا اگر ماہرین اور معالجین مل کر مختلف بیماریوں کے مخصوص مرکبات کی درجہ بندی کرلیں اور انجینیئرز ایسے آلات بنا لیں جو فوری طور پر ان مخصوص علامات کی شناخت کرلیں تو یہ ممکنہ طور پر طب کے شعبے میں انقلاب لا سکتا ہے۔
سونگھ کر بیماری کی تشخیص کا ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہوگا کہ موجودہ تشخیص کی تکنیکوں سے مریضوں کو ہونے والی تکالیف سے چھٹکارہ حاصل ہو جائے گا۔