جدید سندھی ادب کے بانی اور بیسویں صدی کے سب سے بڑے سندھی ادیب، شاعر،ڈرامہ نگار و دانشور شیخ ایاز کی آج سولہویں برسی منائی جا رہی ہے۔
بھٹائی کی صوفیانہ شاعری کا تسلسل, انسان دوستی ، وطنیت، پیار، تذکرہ حسن، صوفی ازم، قربانی اور سچ یکجا ہوں تو شیخ ایاز بنتا ہے، شیخ ایاز کو لطیف بھٹائی کے بعد سندھ کا عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔
آپ جدید سندھی ادب کے بانیوں میں شامل ہیں، درجنوں کتابوں اور ڈراموں کے مصنف شیخ ایاز سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے، آپ نے لطیف بھٹائی کے شاھ جو رسالو کا منظوم اردو ترجمہ کیا۔
ایاز نے شاعری کے ذریعے نئی فکر کے ساتھ سندھ کے سماجی، اخلاقی و ثقافتی سوچ و فکر پر گہرے اثرات مرتب کئے، جہاں کہیں بھی انقلاب، تبدیلی، دھرتی سے پیار اور نئی فکر جہت کی بات ہوگی اسے شیخ ایاز کے ذکر کے بغیر ادھورا و نامکمل تصور کیا جائے گا۔
ابھی تبدیلی کے متوالے، ادب کے شیدائی پوری طرح استفادہ بھی نہ کر سکے تھے کہ اٹھائیس دسمبر انیس سو ستانوے کو یہ عظیم شخصیت دار فانی سے کوچ کر گئی۔