جمعہ, مئی 17, 2024
اشتہار

عالمی شہرت یافتہ جین آسٹن کے ناولوں کو کس نے اسلوب عطا کیا؟

اشتہار

حیرت انگیز

انگریزی ادب میں جین آسٹن کو عظیم ناول نگار کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے ناول پرائڈ اینڈ پریجوڈس کی وجہ سے دنیا بھر میں ممتاز ہوئیں۔ اس ناول کو دنیا کے دس عظیم ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جین آسٹن 1817 میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

اس انگریز ناول نگار نے اپنی زندگی میں چھے ناول مکمل کیے تھے جن میں سے دو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ چند سال قبل جین آسٹن کے ناول ایما کا پہلا منقش ایڈیشن بھی ریکارڈ قیمت پر نیلام ہوا تھا۔ یہ تین جلدوں پر مشتمل کتابیں‌ جین آسٹن کی معرفت این شارپ کے نام منقّش کی گئی تھیں۔ این شارپ، جین آسٹن کی دوست اور ان کی بھتیجی کی گورنس تھیں۔

انگریزی زبان میں کلاسیکی ادب کے حوالے سے جین آسٹن کے فن اور اسلوب کو کئی اہم اور قابلِ ذکر نقادوں نے سراہا اور کہا کہ انھوں نے انسانی فطرت اور رشتوں کی باریکیوں کو سمجھا اور پھر نہایت خوب صورتی اور پُرتاثیر انداز میں اپنے ناولوں میں‌ پیش کیا۔ لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ انگریزی زبان و ادب کی ایک پروفیسر نے اپنے تحقیقی مطالعے کے بعد جین آسٹن کے صاحبِ اسلوب ہونے کو مسترد کرتے ہوئے انھیں‌ ایک ایسی مصنّف کے طور پر پیش کیا ہے جو اختراع پسند اور تجربات کرنے والی تھیں، اور ان کے مطابق وہ گفتگو اور مکالمہ نویسی پر زبردست گرفت رکھتی تھیں۔

- Advertisement -

جین آسٹن ایک برطانوی پادری کی بیٹی تھیں۔ انھوں نے 1775ء میں‌ برطانیہ میں‌ آنکھ کھولی۔ ‘پرائڈ اینڈ پریجوڈیس’ ان کا وہ ناول ہے جسے دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اردو میں‌ اس کے متعدد تراجم سامنے آئے۔ اردو میں اس ناول کو فخر اور تعصّب کے نام سے پیش کیا گیا۔ جین آسٹن کے دیگر ناولوں میں‌ ‘مینز فیلڈ پارک’ اور ‘ایما’ بھی شامل ہیں۔ ایما پہلی بار 1816ء میں شائع ہوا تھا۔ سینس اینڈ سینسیبلٹی یعنی شعور و احساس اور نارتھینجر ایبے وہ ناول تھے جو بہت بعد میں شائع ہوئے۔

مصنّفہ کے ناول کے کردار سماج اور اس کے اشراف ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے ناولوں میں‌ روایات، رویوں پر طنز اور ہلکے پھلکے انداز میں‌ چوٹ کی اور آج بھی ان کے ناول اس دور کے برطانوی معاشرے اور وہاں‌ ہر خاص و عام کی اخلاقی حالت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

جین آسٹن کی موت کے لگ بھگ دو صدی بعد آکسفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر کیتھرین سودرلینڈ کی تحقیق میں دعویٰ یہ کیا گیا کہ اس معروف ناول نگار کا اسلوب ان کا اپنا نہیں بلکہ کسی مدیر کے زورِ قلم کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے جین آسٹن کی دستی تحریر پر مشتمل گیارہ سو صفحات کے مطالعے کے بعد یہ دعویٰ کیا تھا۔ یہ مصنفہ کے غیر مطبوعہ اوراق تھے اور سودرلینڈ کے مطابق ان مسودوں پر دھبے اور کاٹ چھانٹ کے ساتھ ’گرامر کے لحاظ سے تصحیح‘ کی گئی ہے جس سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا۔ ان کے مطابق ان مسودوں میں وہ سب نہیں‌ جو ایما جیسے ناول میں دکھائی دیتا ہے۔ سودر لینڈ کا خیال ہے کہ ادارت اور تصحیح کے لیے جین آسٹن کسی سے بھرپور مدد لیتی رہی ہوں‌ گی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں