صدیوں پہلے کی بات ہے ملک اطالیہ میں ایک دریا کے کنارے بسے گاﺅں میں ڈیوڈ اور سیموئیل نامی دو بھائی رہتے تھے جو طاقت ور اور خوبرو تھے، لیکن غریب تھے۔
اکثر ان کے پاس سوائے اس مچھلی کے، کھانے کو کچھ بھی نہ ہوتا جسے وہ دریا سے پکڑ کر لاتے۔ ایک روز وہ بغیر کچھ کھائے طلوعِ آفتاب کے وقت سے ہی دریا میں ڈور ڈالے بیٹھے تھے۔ دن گزرتا رہا اور یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا اور پھر دریا میں غروب ہونے کو آیا مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔ وہ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اپنی مچھلی پکڑنے کی ڈور سمیٹیں، گھر جائیں اور سو جائیں کہ بڑے بھائی نے محسوس کیا، اس کی ڈور ہل رہی ہے۔ اور جب انہوں نے اسے باہر کھینچا تو اس کے کانٹے پر ایک ننھی سی سنہری مچھلی اٹکی ہوئی تھی۔
”کیا بدبختی ہے۔ اتنی ننھی مُنی سی مچھلی!“ ڈیوڈ چلّایا، ”خیر کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہے، میں اسے روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑوں کے ساتھ ابالوں گا اور ہم رات کے کھانے میں اسے کھائیں گے۔“
”اوہ، نہیں مجھے مت مارو!“ مچھلی نے دہائی دی۔ ”میں تمہارے لیے خوش قسمت ثابت ہو سکتی ہوں، واقعی میں ایسا کر سکتی ہوں۔“
”تم احمق ہو!“ وہ چلّایا، ”میں نے تمہیں پکڑ لیا ہے، اور میں تمہیں کھاﺅں گا۔“
لیکن اس کے بھائی سیموئیل کو مچھلی پر ترس آ گیا اور اس کی حمایت میں بولا؛
”اِس ننھی سی جان کو زندہ رہنے دو۔ یہ تو ایک لقمے کے برابر بھی نہیں۔ اور ہمیں کیا پتہ کہ وہ ٹھیک ہی کہہ رہی ہو اور ہم اس کی لائی خوش قسمتی کو ٹھکرا رہے ہوں! اسے دریا میں چھوڑ دو۔ یہی مناسب ہے۔“
مچھلی بولی، ”اگر تم مجھے زندہ رہنے دو گے تو کل صبح تمہیں دریا کے کنارے دو شان دار گھوڑے، جن پر عمدہ اور عروسی کاٹھیاں پڑی ہوں گی ملیں گے اور تم دو سورماﺅں کی طرح مہم جوئی کے لیے دنیا بھر میں جا سکو گے۔“
”پیارے بھائی، یہ سب بکواس ہے۔“ ڈیوڈ چھوٹے سے مخاطب ہوا۔ ” ہمارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ مچھلی سچ بول رہی ہے اور اس کی بات پوری ہوگی۔“
سیموئیل مچھلی کی حمایت میں پھر بولا؛ ”بھائی! اسے زندہ رہنے دو۔ تمہیں پتہ ہی ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا تو ہم اسے کبھی نہ کبھی دوبارہ بھی پکڑ سکتے ہیں۔ اس کی کہی بات پر ایک بار اعتبار کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔“
ان کے درمیان دیر تک بحث ہوتی رہی اور آخر کار ڈیوڈ مان گیا اور اس نے مچھلی کو دریا میں واپس ڈال دیا۔ اس رات وہ دونوں کچھ کھائے بغیر ہی سوئے اور رات بھر خوابوں میں انہیں یہی خیال آتا رہا کہ اگلا دن ان کے لیے کیا انہونی لے کر آرہا ہے۔
وہ سورج کی پہلی کرن پھوٹتے ہی جاگ گئے۔ اور پھر اگلے کچھ ہی منٹوں میں وہ دریا کے کنارے پر موجود تھے۔ وہاں، جیسا کہ ننھی سنہری مچھلی نے کہا تھا، دو زبردست، توانا سفید گھوڑے کھڑے تھے جن پر سجیلی کاٹھیاں پڑی تھیں اور ان پر دو زرہ بکتر اور ان کے نیچے پہننے والے لباس بھی پڑے تھے۔ پاس ہی دو تلواریں، زادِ راہ کے طور پر کچھ چیزیں اور سونے کے سکّوں سے بھرے دو بٹوے بھی تھے۔ یہ سب واقعی ان کے لیے انہونی سے کم نہیں تھا۔
”دیکھا بھائی۔“ سیموئیل نے کہا، ”کیا آپ اب شکر گزار نہیں ہیں کہ آپ نے مچھلی کو نہیں کھایا؟ وہ واقعی ہمارے لیے خوش قسمت ثابت ہوئی ہے اور ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم کیا بننے والے ہیں۔ اب ہمیں اپنی اپنی مہم پر نکلنا چاہیے۔ اگر آپ ایک راستہ اختیار کریں گے تو میں دوسرے پر جاﺅں گا۔“
”ٹھیک ہے۔“ ڈیوڈ نے جواب دیا۔ ”لیکن ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ ہم دونوں زندہ اور صحیح سلامت ہیں۔“
”بھائی، کیا آپ سامنے انجیر کا درخت دیکھ رہے ہیں؟“ اس نے کہا، ”ہمیں یہ کرنا ہو گا کہ ہم اس درخت کے پاس آئیں اور اس کے تنے پر تلوار سے ایک گھاﺅ لگائیں۔ اگر اس سے دودھ رِسا تو ہم جان لیں گے کہ ہم ٹھیک ٹھاک ہیں اور خوش حال ہیں لیکن اگر اس میں سے خون نکلا تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہم میں سے ایک مر چکا یا اس کی جان سخت خطرے میں ہے۔“
اس کے بعد دونوں بھائیوں نے اپنی اپنی زرہ بکتر پہنی، سونے کے سکّوں سے بھری چرمی تھیلیاں اور تلواریں کمر پر باندھیں، زادِ راہ لادا، ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور پھر گھوڑوں پر بیٹھ کر گاﺅں کے چوراہے تک تو ساتھ ساتھ گئے لیکن پھر ڈیوڈ دائیں طرف مڑ گیا اور سیموئیل نے بائیں کو منہ کیا اور آگے بڑھ گیا۔
ڈیوڈ گھوڑا دوڑاتا ایک اجنبی مملکت کی سرحد پر جا پہنچا۔ اس نے سرحد پار کی اور خود کو ایک بڑے دریا کے کنارے پایا۔ اس نے دیکھا کہ دریا کے بیچوں بیچ ایک ننھے سے جزیرے پر ایک خوبصورت لڑکی ایک چٹان کے ساتھ زنجیروں میں جکڑی بیٹھی زار و قطار رو رہی تھی۔ ڈیوڈ نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اسے ساری زمین ایسے جلی ہوئی دکھائی دی جیسے کسی نے اس پر آگ برسائی ہو؛ جلی ہوئی گھاس، ٹنڈ منڈ سوختہ درخت، یہاں تک کہ آگ کی حدّت اور تپش سے دریا کے کنارے پر موجود ریت بھی پگھلی ہوئی معلوم ہورہی تھی۔
اس نے لڑکی سے اونچی آواز میں پوچھا؛ ”تم کون ہو اور تمہیں یہاں کس نے باندھ کر رکھا ہوا ہے اور تم رو کیوں رہی ہو۔“
لڑکی نے روتے ہوئے اسے بتایا؛ ”میں اس ملک کے بادشاہ کی بیٹی ہوں۔ اس دریا میں ایک سات سَروں والا اژدہا رہتا ہے جو اپنے ہر نتھنے سے آگ برساتا ہے۔ اسے اس سے باز رکھنے کے لیے میرے والد کو ہر روز کھانے کے لیے ایک جوان دوشیزہ کی بلی دینی پڑتی ہے۔ اس نے میرے باپ کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ اس ساری مملکت کو جلا کر راکھ کر دے گا۔ یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے اور اب اس ملک میں کوئی جوان لڑکی نہیں بچی، اس لیے میرے والد نے بے بس ہو کر مجھے ہی اس کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ میں اس لیے رو رہی ہوں کہ جیسے ہی اس اژدہے کو بھوک لگی، وہ آئے گا اور مجھے کھا جائے گا۔“
”میں کوشش کرتا ہوں کہ وہ تمہیں نہ کھا پائے۔“ ڈیوڈ نے اسے دلاسا دیا۔
”نہیں، نہیں، یہاں مت رکو، ورنہ وہ تمہیں بھی ہڑپ کر جائے گا۔“ ، شہزادی تڑپ کر بولی۔
”نہیں لڑکی، میں یہیں رہوں گا۔“ ڈیوڈ بولا، ”اور تمہیں بچانے کی کوشش کروں گا۔“
”یہ ممکن نہیں ہے۔ اسے آج تک کوئی نہیں مار سکا حالانکہ میرے والد نے یہ اعلان بھی کروایا تھا کہ جو کوئی بھی اسے مارے گا، اس سے میری شادی کر دی جائے گی۔ تم اس خوف ناک بلا کو نہیں جانتے۔ یہ پہلے بھی بہت سے خوبرو جوانوں کو جو میرے ساتھ شادی کے لالچ میں اسے مارنے آئے تھے ہلاک کر چکی ہے۔“
”لیکن میں تو تم سے شادی کے لالچ میں یہاں نہیں آیا۔“
”ٹھیک ہے لیکن پھر بھی تم یہاں سے چلے جاﺅ تاکہ تم پر کوئی مصیبت نہ آئے۔“
”لیکن میں تمہیں یوں مصیبت میں گھرا چھوڑ کر بھی تو نہیں جا سکتا۔ تم مجھے بس اتنا بتاﺅ کہ سات سَروں والا یہ اژدہا کس طرف سے آئے گا؟“
”وہ دریا کی پاتال سے اوپر ابھرے گا۔ ویسے اگر تم نے مجھے بچانے کا تہیہ کر ہی لیا ہے تو میرا مشورہ مانو، ایک طرف ہٹ کر اس بڑے پتھر کی اوٹ میں چلے جاﺅ جو تمہارے دائیں ہاتھ ہے۔ جب اژدہا اوپر ابھرے گا تو میں اس سے کہوں گی، ’اے اژدہے تم آج دو انسانوں کو کھا سکتے ہو۔ پہلے تم پتھر کی اوٹ میں چھپے جوان کو کھا لو۔ مجھے تو تم کسی وقت بھی کھا سکتے ہو، کیونکہ میں تو زنجیروں میں بندھی ہوں۔‘ یہ سن کر وہ یقیناً تمہاری طرف لپکے گا۔“
ڈیوڈ پتھر کی اوٹ میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے دریا میں تلاطم کی آواز سنی۔ اس نے دیکھا کہ ایک بڑی سات سَروں والی بلا اس طرف بڑھی جہاں شہزادی چٹان کے ساتھ بندھی تھی۔ وہ بھوکی تھی اور جلد ہی کچھ کھانا چاہتی تھی۔ شہزادی چلّا کر بولی ”اے اژدہے تم آج دو لوگوں کو کھا سکتے ہو۔ پہلے تم پتھر کی اوٹ میں چھپے جوان کو کھا لو، کہیں وہ بھاگ نہ جائے۔ مجھے تو تم کسی وقت بھی کھا سکتے ہو، کیونکہ میں تو زنجیر میں جکڑی ہوئی ہوں۔“
یہ سن کر اژدہا منہ کھولے ڈیوڈ کی طرف بڑھا تاکہ ایک ہی بار اسے ہڑپ کر لے۔ ڈیوڈ نے اچھلتے ہوئے میان سے تلوار نکالی اور تب تک اژدہے سے لڑتا رہا جب تک اس نے اس کے ساتوں سر قلم نہ کر لیے۔ اژدہا جب مر گیا تو اس نے شہزادی کو آزاد کیا۔ شہزادی نے اسے کہا؛
”اب جب کہ تم نے بلا کو مار دیا اور مجھے بچا بھی لیا ہے تو تم میرے والد کے اعلان کے مطابق میرے خاوند بنو گے۔ چلو محل چلتے ہیں۔“
”لیکن میں تو ابھی تم سے شادی نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے ابھی دنیا میں اور بھی گھومنا پھرنا ہے۔ لیکن اگر تم میرا سات سال اور سات مہینے تک انتظار کر سکو تو ہماری شادی ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر تب تک میں واپس نہ آﺅں تو تم کسی کے ساتھ بھی شادی کر سکتی ہو۔ میں بلا کی ساتوں زبانیں کاٹ کر ساتھ رکھ لیتا ہوں کہ بھول جانے کی صورت میں، تم انہیں دیکھ کر پہچان لو کہ یہ میں ہی تھا جس نے اژدہے کو ہلاک کیا تھا۔“
یہ کہہ کر ڈیوڈ نے عفریت کی ساتوں زبانیں کاٹیں، انہیں شہزادی کے دیے دو شالے میں لپیٹا، کاٹھی کے ساتھ لٹکایا، گھوڑے پر سوار ہوا اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔
اسے گئے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ وہاں بادشاہ کے دیوانِ خاص کا بیٹا پہنچا، شہزادی ابھی اپنے حواس بحال کر رہی تھی۔ اُسے بادشاہ نے یہ دیکھنے کے لیے بھیجا تھا کہ اس کی بیٹی پر کیا بیتی تھی۔ اس نے جب شہزادی کو اپنے سامنے محفوظ اور آزاد پایا جس کے قدموں میں اژدہا مرا پڑا تھا تو اس کے دل کو بدنیتی نے گھیرا اور اس نے شہزادی سے کہا؛ ”تم اپنے والد سے جا کر کہوگی کہ یہ میں ہی ہوں جس نے اژدہے کو مارا اور تمہیں بچایا ہے۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا اور یہیں اژدہے کے ساتھ زمین میں گاڑ دوں گا۔ اور کوئی نہیں جان پائے گا کہ تمہیں اژدہے نے کھایا یا میں نے تمہاری جان لی۔“
بیچاری شہزادی کیا کرتی؟ اب تو ڈیوڈ سا سورما بھی جا چکا تھا جو اس کی مدد کرتا۔ اسے دیوانِ خاص کے بیٹے کی بات ماننے کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ اس نے اس کی بات مان لی۔ دیوان خاص کے بیٹے نے بلا کے ساتوں سر کاٹے اور انہیں لیے شہزادی کے ہمراہ بادشاہ کے پاس چلا گیا۔
بادشاہ اپنی بیٹی کو زندہ دیکھ کر خوش ہوا۔ ملک بھر میں جشن کا سماں بندھا۔ ایک شاہی تقریب میں دیوان خاص کے بیٹے نے سب کو بتایا کہ اس نے کس طرح دریائی بلا کو مارا اور شہزادی کو بچا لیا۔ اس پر بادشاہ نے اعلان کیا کہ وہ اسے اپنا داماد بنا رہا ہے۔
شہزادی جو ڈیوڈ کی بہادری کی قائل ہو چکی تھی اور اپنا دل بھی اس کو دے بیٹھی تھی اس نے اپنے والد کی منت سماجت کی کہ وہ اس شادی کو سات سال اور سات ماہ کے لیے ملتوی کر دے۔ پہلے تو بادشاہ نہ مانا۔ دیوانِ خاص اور اس کے بیٹے نے بھی بادشاہ سے احتجاج کیا۔ شہزادی بہرحال اپنے موقف پر ڈٹی رہی جس پر بادشاہ نے بیٹی کی بات مان لی۔
اُدھر ڈیوڈ دنیا بھر کی سیر کرتا کئی اور معرکے سر کرتا رہا اور پھر ایک روز شہزادی کے دیس لوٹا۔ سات سال اور سات مہینے کا عرصہ ختم ہونے میں ایک دن ہی بچا تھا۔ محل میں شادی کی تیاریاں ہو رہیں تھیں۔ وہ بادشاہ کے سامنے گیا اور بولا: ”بادشاہ سلامت! مجھے آپ کی بیٹی کا ہاتھ چاہیے کیونکہ یہ میں ہی ہوں جس نے سات سروں والی دریائی بلا کو مارا تھا۔“
بادشاہ اس کی بات سن کر غصے میں آیا اور بولا؛ ”تمہارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم سچ کہہ رہے ہو؟“
ڈیوڈ نے شہزادی کا دو شالہ کھول کر اس کے سامنے بچھا دیا جس میں سات سکڑی ہوئی زبانیں پڑی تھیں۔ بادشاہ نے بیٹی کی طرف دیکھا۔
”میرے پیارے بابا، یہ جوان سچ کہہ رہا ہے۔ اسی نے سات سروں والے اژدہے کو مارا تھا اور اس کی زبانیں کاٹی تھیں۔ کڑھائی والا دو شالہ میرا ہی ہے جو میں نے اسے زبانیں لپیٹنے کے لیے دیا تھا۔ یہی میرا خاوند بننے کے لائق ہے۔ میری یہ بھی التجا ہے کہ آپ دیوانِ خاص کے بیٹے کو بھی معاف کر دیں کہ اس پر شیطان غالب آ گیا تھا اور اس نے جھوٹ بولا تھا۔ میں نے اسی لیے آپ سے شادی ملتوی کروائی تھی کہ اصل سورما نے اسی مدت میں لوٹنے کا وعدہ کیا تھا۔“
”اس مکاری کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ میں حکم دیتا ہوں کہ دیوانِ خاص کے بیٹے کا سر فوراً قلم کر دیا جائے۔ میں دیوانِ خاص کو اس کے عہدے سے بھی ہٹاتا ہوں اسے اور اس کے پورے خاندان کو بھی تا حیات پابند ِسلاسل رہنا ہو گا۔“ بادشاہ غضب ناک ہو گیا اور اس کے حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ڈیوڈ کی شادی شہزادی سے ہو گئی۔ یوں ڈیوڈ اس کے ساتھ بادشاہ کے محل کے پاس ہی ایک دوسرے محل میں ہنسی خوشی رہنے لگا۔
ایک شام ڈیوڈ کھڑکی کے باہر دیکھ رہا تھا کہ اسے شہر سے دور پہاڑ پر ایک تیز روشنی چمکتی دکھائی دی۔
”یہ کیسی روشنی ہے؟“ اس نے بیوی سے پوچھا۔ اس کی بیوی نے ایک آہ بھری اور بولی،”اسے مت دیکھیں۔“ ”یہ اس مکان سے نکل رہی ہے جہاں ایک بہت ہی چالاک جادوگرنی رہتی ہے جسے آج تک کوئی بھی مار نہیں سکا۔“
بہتر ہوتا کہ شہزادی اسے یہ نہ بتاتی کیونکہ اس کے الفاظ نے ڈیوڈ میں پھر سے یہ خواہش جگا دی تھی کہ وہ اپنی بہادری کو اس چالاک جادوگرنی کے خلاف آزمائے۔ اس رات ڈیوڈ کی خواہش اس کے دل و دماغ میں پلتی رہی اور جب صبح ہوئی تو وہ اپنی بیوی کے آنسوﺅں کی پروا نہ کرتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر اس پہاڑ کی جانب روانہ ہو گیا۔
فاصلہ اس کے اندازے سے کہیں بڑھ کر تھا۔ وہ اندھیرا ہونے تک پہاڑ کے دامن تک ہی پہنچ پایا۔ قلعہ نما مکان سے نکلنے والی روشنی نے آگے کا راستہ ایسے روشن کر رکھا تھا جیسے آسمان پر چمکتا چاند، رات میں راستے روشن کر دیتا ہے۔ وہ جب قلعے کے دروازے پر پہنچا تو اسے اس کی ہر کھڑکی سے روشنی پھوٹتی نظر آئی جس نے قلعے کے گرد ا گرد ایک شیطانی حصار بنا رکھا تھا۔ وہ اپنی تلوار کی مدد سے اس حصار کو چیرتا اندر داخل ہوا تو سامنے ایک وسیع کمرے میں ایک سیاہ آبنوسی کرسی پر ایک مکروہ بُڑھیا بیٹھی تھی۔ اس کی کرسی سیاہ تو تھی لیکن یہ نیلے شعلوں میں لپٹی ہوئی تھی۔
”آگے مت بڑھنا ورنہ میں اپنے سَر کے بالوں میں سے ایک بال توڑوں گی اور تم نیلی آگ کے ہاتھوں پتھر ہو جاﺅ گے۔“ وہ بولی۔
”کیا بکواس ہے!“ ڈیوڈ غصّے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، ” خاموش رہ بڑھیا، ایک بال میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟“اس نے کہا۔
یہ سن کر بڑھیا نے اپنا ایک بال توڑا اور اسے ہوا میں ڈیوڈ کی طرف اچھالا۔ یہ نیلی آگ کے ایک تیر میں بدلا اور ڈیوڈ کی طرف لپکا۔ ڈیوڈ نے اسے اپنی تلوار سے کاٹنا چاہا لیکن اس کی تلوار چُوک گئی اور تیر اس کے کندھے سے ٹکرایا۔ ساتھ ہی اس کا کندھا ٹھنڈی آگ سے سرد ہوا اور پھر اس کے باقی کے اعضا اور جسم بھی وہیں منجمد ہو گیا۔
یہی لمحہ تھا جب اس کا بھائی سیموئیل، جسے ڈیوڈ برسوں پہلے ایک موڑ پر چھوڑ آیا تھا، اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ اس سوچ میں غلطاں تھا کہ جب سے وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے، ڈیوڈ کیا کرتا رہا ہو گا اور کیا وہ خیریت سے ہے؟
”مجھے انجیر کے درخت کے پاس جانا چاہیے۔“ اس نے خود سے کہا، ”اور یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ کہیں وہ کسی مشکل میں گرفتار تو نہیں۔“
وہ اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اور صحراﺅں، میدانوں اور جنگلوں سے گزرتا انجیر کے درخت کے پاس پہنچا۔ اس نے اس کے تنے میں تلوار سے ایک گھاﺅ لگایا۔ گھاﺅ کا لگنا تھا کہ درخت سے درد بھرا ایک شور اٹھا اور چیرے سے خون ابل پڑا۔
”اوہ، میرا بھائی یا تو مر چکا ہے یا پھر اس کی جان خطرے میں ہے۔“ سیموئل غمگین ہوا اور چلّایا۔” اور کیا میں اس کی جان بر وقت بچا لوں گا؟“ اس نے چھلانگ لگائی، گھوڑے پر سوار ہوا اور گھوڑا سرپٹ دوڑنے لگا۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ خطِ استوا پار کرکے دنیا کے اس حصے میں داخل ہوا جہاں ایک ملک میں ڈیوڈ رہتا تھا۔ مزید کئی دن کے سفر کے بعد بالآخر وہ اس ملک کے دارلخلافہ میں پہنچ ہی گیا۔ وہ اس عالی شان گھر کے پاس سے گزرا جس میں ڈیوڈ اور اس کی بیوی رہتی تھی۔ وہ بالکونی میں بیٹھی رو رہی تھی کہ اس کی نظر سیموئیل پر پڑی۔ اسے لگا جیسے وہ ڈیوڈ ہو۔ اسے ایسا لگنا ہی تھا کیونکہ ڈیوڈ اور سیموئیل میں اتنی مشابہت تھی کہ اگر وہ دونوں ساتھ ساتھ کھڑے ہوتے تو یہ جاننا آسان نہ ہوتا کہ ان میں سے ڈیوڈ کون ہے اور سیموئیل کون۔ شہزادی کا دل خوشی سے دھڑکنے لگا۔ وہ نیچے اتری اور بولی: ” میری جان، تم بالآخر لوٹ ہی آئے۔ میں مدتوں سے تمہاری یاد میں آنسو بہا رہی ہوں!“
جب سیموئیل نے یہ سنا تو اس نے خود سے کہا، ” تو یہ وہ جگہ ہے جہاں میرا بھائی رہتا تھا اور یہ عورت میری بھابی ہے۔“ لیکن وہ خاموش رہا اور شہزادی کو یہ ہی سمجھنے دیا کہ وہ اس کا خاوند تھا۔ شہزادی اسے بوڑھے بادشاہ کے پاس لے گئی جس نے اس کی واپسی کے جشن اہتمام کیا۔
شہزادی جب بھی سیموئیل کے پاس جاتی اور اسے بانہوں میں لے کر اس سے پیار کرنا چاہتی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے اسے خود سے الگ کر دیتا۔ وہ اس کے اس رویے پر پریشان ہوتی اور اسے سمجھ نہ آتی کہ سیموئیل جسے وہ اپنا خاوند سمجھتی تھی، اسے قریب کیوں نہیں آنے دیتا۔ اسی طرح کئی دن گزر گئے۔ اور پھر ایک روز جب وہ بالکونی میں کھڑا تھا تو اس نے پہاڑ پر وہی چمکتی ہوئی روشنی دیکھی جس کے پیچھے ڈیوڈ گیا تھا۔
”یہ روشنی کیسی ہے ؟“، اس نے شہزادی سے پوچھا۔
”اوہ، اسے مت دیکھو۔“ وہ چلائی ” کیا تم اس کے ہاتھوں پہلے ہی ایذا نہیں بھگت چکے؟ کیا تم اس بوڑھی چڑیل سے ایک بار اور لڑنا چاہتے ہو؟“ سیموئیل نے اپنی بھابی کے الفاظ پر غور کیا۔ اسے سمجھ آ گئی کہ اس کا بھائی کہاں تھا اور وہ کسی مصیبت میں گرفتار تھا۔ اگلی صبح وہ پَو پھٹنے سے پہلے ہی، جب شہزادی ابھی سو رہی تھی، اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اورپہاڑ کی طرف چل دیا۔ پہاڑ اس کے اندازے کے برعکس خاصا دور تھا۔ راستے میں اسے ایک بوڑھا بونا ملا جس نے سیموئیل سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔
اس نے بونے کو اپنی کہانی بتائی اور یہ بھی کہا؛ ”مجھے کسی نہ کسی طرح اپنے بھائی کو بچانا ہے۔ وہ یقیناً اس چالاک بوڑھی جادوگرنی کی کسی چال میں پھنسا ہوا ہے۔“
”میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔“ ، بوڑھے بونے نے کہا۔ ” اس جادوگرنی کی ساری طاقت اس کے بالوں میں ہے جیسے سیمسن کے بالوں میں تھی۔ سیمسن تو خیر نیک تھا اور لوگوں کی بھلائی کے لیے اور ظلم کے خلاف اپنی طاقت استعمال کرتا تھا لیکن یہ چڑیل نہایت خبیث اور ظالم ہے اور یہ لوگوں کو ایذا پہنچانے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ اسے اس کے انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ جب تم اس تک پہنچو تو فوراً جھپٹ کر اس کے بال قابو کر لینا اور پھر انہیں کسی طور بھی مت چھوڑنا بلکہ اسے مجبور کرنا کہ وہ تمہیں، تمہارے بھائی کے پاس لے جائے اور اسے اس کی زندگی لوٹائے۔“
”لیکن۔۔۔!“ سیموئیل نے کچھ پوچھنا چاہا۔ ”میری بات مت کاٹو اور دھیان سے سنو۔ اس نے یقیناً تمہارے بھائی کو پتھر کر دیا ہو گا۔ وہ ایسا ہی کرتی ہے۔ لیکن اس کے پاس اس کا توڑ بھی ہے۔ اس کے پاس آبِ حیات کی ایک صراحی ہے۔ یہ ہر طرح کے زخم، گھاﺅ ختم کر دیتا ہے اور اس میں اتنی طاقت ہے کہ یہ حق سچ کی خاطر مردوں کو بھی زندہ کر دیتا ہے۔ اور ہاں جب تمہارا بھائی بھلا چنگا ہو جائے تو جادوگرنی کا سَر قلم کرنا نہ بھولنا تاکہ دنیا اس کی بدی سے نجات پا سکے۔“ بونے نے اپنی بات مکمل کی۔
سیموئیل نے بونے کو اس کے کہے پر عمل کرنے کا یقین دلایا اور اس کا شکریہ بھی ادا کیا۔ وہ پھر سے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا پہاڑ کی چوٹی کی طرف بڑھا اور قلعہ نما مکان کے دروازے پر پہنچا اور نیلی روشنی کے حصار کو اپنی تلوار سے چیرتا، سیڑھیاں پھلانگتا وسیع کمرے میں داخل ہوا۔ خوف ناک بوڑھی جادوگرنی اپنی سیاہ آبنوسی کرسی پر براجمان تھی۔ اس کے چہرے پر ایک چالاک مسکراہٹ آئی اور اپنی طرف بڑھتے سموئیل سے مخاطب ہوئی۔
”میں تمہیں اپنے ایک بال کے ذریعے ہی قابو کر کے پتھر کر سکتی ہوں۔“ اور پھر اس نے اپنا ایک بال توڑا اور اس کی طرف اچھالا، وہ نیلی آگ کے تیر میں بدلا اور سیموئیل کی طرف بڑھا۔ وہ جھکا اور اس تیزی سے جادو گرنی کی طرف لپکا کہ تیر دیوار سے ٹکرا کر نیچے گر گیا۔ اتنے میں سیموئیل نے جادوگرنی کو جا لیا اور اس کے بال مٹھی میں جکڑتے ہوئے بولا؛ ”مجھے بتاﺅ تم نے میرے بھائی کے ساتھ کیا کیا ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔“
اب جب وہ جادوگرنی اپنی طاقت کھو بیٹھی تھی تو چالاکی سے مسکرائی اور بولی؛
”میں تمہیں تمہارے بھائی کے پاس لے چلتی ہوں لیکن پہلے تم مجھے چھوڑو تو سہی۔ تم نے مجھے بری طرح جکڑ رکھا ہے۔“
”تمہیں یوں ہی آگے بڑھنا ہو گا۔“ سیموئیل نے اسے آگے دھکیلتے ہوئے کہا۔
وہ سیموئیل کو لیے اس بڑے کمرے میں گئی جہاں بہت سارے پتھر کے مجسمے موجود تھے جو پہلے کبھی انسان رہے ہوں گے۔ جادوگرنی نے ایک کی طرف اشارہ کیا۔
” وہ رہا تمہارا بھائی۔“ سیموئیل نے مجسموں پر نگاہ دوڑائی اور بولا ”ان میں کوئی بھی میرا بھائی نہیں ہے۔“ جادوگرنی اسے اور مجسموں تک لے گئی اور اسے پھر ورغلانے کی کوشش کی۔ جادوگرنی کی یہ چالاکی اس کے کام نہ آئی اور بالآخر وہ اسے لیے وہاں پہنچی جہاں ڈیوڈ پتھر بنا فرش پر لیٹا تھا۔
”ہاں یہ میرا بھائی ہے۔ اب تم مجھے آبِ حیات کی صراحی دو، جس سے یہ پھر سے زندہ ہو سکے۔“ سیموئیل نے اس کے گلے پر تلوار کی نوک چبوتے ہوئے کہا۔
جادوگرنی نے پاس پڑی ایک الماری کھولی جو بوتلوں اور صراحیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے ان میں سے ایک نکالی اور سیموئیل کو تھما دی۔ وہ اب بھی اس سے مکر کر رہی تھی اور اس نے ایسا کئی بار کیا لیکن جب اس نے یہ دیکھا کہ سیموئیل کسی طور بھی اس کے فریب میں نہیں آ رہا تو اس نے تنگ آ کر اسے آبِ حیات والی صراحی تھما دی۔ اس نے احتیاط سے ایک ہاتھ استعمال کرتے ہوئے صراحی سے چند قطرے اپنے بھائی کے منہ پر چھڑکے اور دوسرے سے جادوگرنی کے بال مضبوطی سے تھامے رکھے۔ جیسے ہی ڈیوڈ کے چہرے پر آبِ حیات کے قطرے گرے وہ زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ سیموئیل نے تلوار کے ایک ہی جھٹکے سے جادوگرنی کا سَر اڑا دیا۔
ڈیوڈ اٹھا اور اس نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا، ”اوہ، میں کتنا عرصہ سویا رہا۔ میں کہاں ہوں؟“
”اس بوڑھی جادوگرنی نے تم پر سحر کر دیا تھا لیکن اب وہ مر چکی ہے، اب تم آزاد ہو۔ ہم اب اُن سب کو جگائیں گے جو اس جادوگرنی کے سحر میں گرفتار ہیں اور یہاں پڑے ہیں۔ پھر ہم یہاں سے چل دیں گے۔“ سیموئیل نے کہا۔
دونوں بھائیوں نے مل کر باقی مجسموں پر آب ِ حیات چھڑکا۔ یوں وہ سارے سورما جو جادوگرنی کو مارنے آئے تھے پھر سے زندہ ہو گئے۔ وہ ڈیوڈ اور سیموئیل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی راہ پر چل دیے۔ ڈیوڈ نے صراحی جس میں ابھی آبِ حیات موجود تھا، اپنی صدری میں سنبھال لی۔ انہوں نے قلعے میں موجود ہیرے جواہرات سمیٹے اور واپسی کا سفر طے کرنے لگے۔
راستے میں وہ ایک دوسرے کو اپنا حال سناتے رہے اور جب گھر کے نزدیک پہنچے تو اچانک سیموئیل نے کہا؛ ”بھائی تم بھی عجیب ہو۔ اپنی پیاری سی بیوی اور شان و شوکت والی زندگی کو چھوڑ کر جادوگرنی سے لڑنے گھر سے نکل پڑے۔ اس بیچاری نے تو مجھے اپنا خاوند سمجھ لیا تھا لیکن میں نے اسے کچھ بھی نہ بتایا۔“
اتنا سن کر ہی ڈیوڈ کو طیش آیا اور اس نے مزید کچھ سنے بِنا تلوار نکالی اور سیموئیل کے سینے میں گھونپ دی۔ سیموئیل گھوڑے سے گِرا اور اس کا جسم گرد میں لپٹ کر دور لڑھک گیا۔
ڈیوڈ جب گھر پہنچا تو اس کی بیوی بیٹھی رو رہی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ کھل اٹھی اور اس کی بانہوں میں سما گئی۔ بادشاہ کو جب اس کی آمد کا پتہ چلا تو اس نے واپسی کی خوشی میں دوپہر کو دعوت کا اہتمام کیا۔ شام میں جب وہ اور اس کی بیوی اپنے کمرے میں تنہا تھے تو شہزادی نے اس سے پوچھا؛
”جب تم اپنی پہلی مہم سے واپس آئے تھے تو تم نے کبھی بھی مجھے اپنے نزدیک نہیں آنے دیا تھا۔ میں جب بھی تم سے پیار کرنے کے لیے آگے بڑھتی تو تم کسی نہ کسی بہانے مجھ سے الگ ہو جاتے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ کیا تم اب بھی مجھ سے بے اعتنائی برتو گے؟“ یہ سن کر ڈیوڈ کو دل میں شرمندگی کا احساس ہوا کہ اس نے اپنے بھائی کی پوری بات نہ سنی تھی اور اسے تلوار مار دی تھی۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رونے لگا۔ پھر اچانک اسے آبِ حیات والی صراحی کا خیال آیا۔ وہ جلدی سے اٹھا، اپنی صدری کی طرف بڑھا، اسے پہنا اور بیوی کو کچھ بتائے بغیر گھوڑے پر سوار اس جگہ جا پہنچا جہاں اس کے بھائی کا لاشا پڑا تھا۔ اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے سیدھا کیا اور تلوار کے گھاﺅ کو دیکھا، صراحی نکالی اور زخم پر آبِ حیات چھڑکا۔ ساتھ ہی اسے ایک آواز سنائی دی۔
” میں سیموئیل کا گھاﺅ اس لیے بھر رہا ہوں اور اس لیے اسے زندہ کر رہا ہوں کہ وہ معصوم ہے۔ اور اس سے کوئی خطا نہیں ہوئی تھی۔ تم سے خطا ہوئی۔ تم اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے اور اس کی پوری بات سنے بغیر تم نے اسے مار ڈالا۔ اب تم اس کی سزا تب تک بھگتو گے جب تک زندہ رہو گے۔ تم اسے دوبارہ نہ دیکھ پاﺅ گے۔ تم خط استوا کے اِس پار سرد علاقے میں رہو گے جب کہ وہ اس خط کے اُس پار گرم علاقے میں اپنی باقی کی زندگی جیے گا کیونکہ اس کا دل سچائی، بھلائی اور معصومیت کی حرارت سے لبریز ہے۔“ یہ آواز صراحی میں آبِ حیات سے ابھر رہی تھی۔
سیموئیل کا گھاﺅ بھر گیا، اس نے آنکھیں کھولیں، ڈیوڈ کو اجنبی نظروں سے دیکھا اور اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا جو پاس ہی گھاس چر رہا تھا۔ ڈیوڈ نے اسے آواز دی لیکن اس نے مڑ کر نہ دیکھا، ڈیوڈ کی آواز کو کسی غیبی طاقت نے اس کے گلے میں ہی گھونٹ دیا تھا، یہ سیموئیل تک پہنچ ہی نہ پائی۔
سیموئیل گھوڑے پر سوار ہوا اور اس کا رخ اُس راستے کی طرف موڑ دیا جو خطِ استوا کے دوسری طرف دُنیا کے گرم خطوں تک جاتا تھا۔
(اطالوی لوک ادب سے ماخوذ کہانی)