ملک بھر کے کمرشل صارفین حال ہی میں نافذ کئے گئے سیلز ٹیکس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جو بجلی کے بل کے ذریعے ان سے وصول کیا جائے گا۔ ٹیکسوں کا حالیہ نفاذ حکومت پاکستان نے رواں مالی سال میں اپنی آمدن میں اضافے اور بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے کیا ہے۔
نیا ٹیکس آئی ایم ایف سے فوری طور پر درکار بیل آؤٹ پیکیج کو یقینی بنانے کے لیے حکومت پاکستان کے سابقہ اقدامات اور وعدوں کے مطابق ہیں۔ یہ تبدیلیاں فنانس ایکٹ 2022 میں کی گئی ہیں۔ یہ فکسڈ پورے پاکستان میں نافذ کیا گیا ہے۔
کے الیکٹرک وہ پہلی یوٹیلیٹی ہے، جس نے اپنے سوشل میڈیا چینلز کے ذریعے اس ٹیکس کے نفاذ کے بارے میں اپنے صارفین کو آگاہ کیا تھا۔ اس اقدام سے عوام میں یہ منفی تاثر پیدا ہوا کہ یہ ٹیکس صرف یہی ڈسکو لگا رہی ہیں۔ جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
یہ ایک ملک گیر مسئلہ ہے جس پر سوشل میڈیا میں ہنگامہ برپا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین اپنے بجلی کے بلوں میں سیلز ٹیکس/ ریٹیلرز سیلز ٹیکس کے عنوان کے تحت تازہ ترین سرچارج کے بارے میں پوسٹ کررہے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے بجلی کے بلوں میں اس اچانک اضافے سے ناراض ہیں اور مشہور گروپ جیسے وائس آف کسٹمر، جس کے ملک بھر سے 330,000 سے زیادہ ممبرز ہیں، اس حوالے سے پوسٹ کررہے ہیں۔
کچھ لوگ اپنے متعلقہ ڈسکوز کو ٹیگ کرکے طنزیہ تبصرے بھی کررہے ہیں، جب کہ کچھ براہ راست پوچھ رہے ہیں کہ کیا اب ہمیں فیڈرل بورڈآف ریونیو (ایف بی آر) کے ساتھ گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی(GEPCO) میں بھی رجسٹرڈ ہونا پڑے گا؟ جس پر بہت سے لوگ "Dear off course” کے ساتھ ردعمل دے رہے ہیں۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ریحان نامی صارف، جنہیں اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (IESCO) بجلی فراہم کرتی ہے، نے ٹویٹ کیا کہ اس نے صرف 39 یونٹ استعمال کیے ہیں جبکہ اس کے بل پر 3000 روپے کی شرح سے اضافی ریٹیلرز ٹیکس لگایا گیا ہے۔
اسی ٹویٹ میں ریحان نے DISCO کو ٹیگ کیا، جس نے جواب دیا کہ یہ اُن دکانداروں کے لیے مقرر کردہ ٹیکس کی شرح ہے، جن کے بل 30,000 روپے سے زیادہ نہیں ہیں۔ اسی طرح گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی سے ایک اور صارف نے شکایت کی کہ اس کے بجلی کے بل میں 6000 روپے سرچارج کیوں لگایا گیا ہے؟
یہ جاننا ضروری ہے کہ فعال ٹیکس دہندگان کے لیے چارج کی شرح 3000 روپے ہے، جن کے بجلی کا بل 30,000 روپے سے کم یا اس کے برابر ہو، جب کہ ٹیکس نہ دینے والے دکانداروں کے لیے چارج کی یہ شرح 6000 روپے ہے۔
ملک کے دیگر حصوں کے صارفین بھی نئے ٹیکس کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کررہے ہیں۔ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (LESCO) کے صارف بلال شیخ نے وائس آف کسٹمر میں اپنے تبصرے کے ساتھ ایک بل شیئر کیا۔ بل میں 7 یونٹس کی کھپت دکھائی گئی ہے، جس پر گروپ کے دیگر صارفین نے تبصرہ کیا کہ اس کا بل کیوں زیادہ آیا ہے؟ جس میں سے ایک میں بلال شیخ کی رہنمائی کی گئی۔ اسی ڈسکو کے دیگر صارفین نے بھی وائس آف کسٹمر میں اپنے پوسٹوں کے ذریعے تبصرہ کیا۔
ایک اور کسٹمر مصطفی سمو جو حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (HESCO) کے صارف ہیں نے ”واہ حیسکو واہ“ کے ساتھ طنزیہ انداز میں ٹویٹ کیا ہے۔
نئے مالی سال کے آغاز پر دکاندار اپنے بڑھے ہوئے بجلی کے بلوں سے پریشان ہیں، تو دوسری طرف ایسا لگتا ہے کہ پورے ملک میں ڈسکوز کو صارفین کے سوالات کا جواب دینے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ صارفین اور ڈسکوز مختلف مسائل کاسامنا ہے، جس کی وجہ سے انہیں اہم تفصیلات کی چھان پھٹک کی آزمائش سے گزرنا پڑرہا ہے۔
اسلام آباد کے رہائشیوں نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے IESCO سے صرف خوردہ فروشوں سے چارج لینے کا مطالبہ کیا ہے اور اس بات کی مذمت کی کہ ملک میں غریب لوگ اب اپنی دکانیں یا دفاتر بھی نہیں چلا سکتے۔ احتجاج کے بعد اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچا جارہا ہے کہ بجلی کنکشنز کو عارضی طور پر کیسے بند کیا جائے۔
دکاندارمتعلقہ ڈسکوز سے اپنی شکایت کے حوالے سے مختلف گروپس میں پوسٹ کررہے ہیں۔ ایک کسٹمر نے یہ بات کہی کہ ”بڑے کاروبار اصل میں کتنے بڑے چور ہیں۔“
ایک حالیہ پریس کانفرنس میں وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے بروہا آن لائن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تقریباً 90 لاکھ پرچون کی دکانیں ہیں اور حکومت ان میں سے 25 سے 30 لاکھ دکانوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک نئی اسکیم متعارف کرائی گئی ہے، جس کے تحت ان دکانداروں کو انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس اپنے بجلی کے بل کے ساتھ ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام کے تحت چھوٹی دکانوں کو ماہانہ 3,000 روپے اور بڑے دکانداروں کو 10,000 روپے کا فکسڈ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔اس کے بعد ان سے کسی اور چیز کی باز پرس نہیں کی جائے گی۔