نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں
فیونا کی ممی مائری مک ایلسٹر نے اپنے باغیچے سے تمام قسم کے پھول چُنے، اور ان سے ایک خوب صورت گل دستہ بنا لیا۔ پھر، چند سبزیاں توڑیں اور باسکٹ میں بھر کر جبران کے گھر کی طرف چل پڑیں۔ پندرہ منٹ بعد وہ جبران کے گھر کے دروازے پر کھڑی تھیں۔ دستک دینے پر ذرا دیر بعد جبران کی امی شاہانہ نے دروازہ کھول دیا۔ وہ مائری کو نہیں پہچان سکیں، کیوں کہ وہ اس سے پہلے کبھی مائری سے نہیں ملی تھیں۔
"میں مائری… مائری اینافرگوسن مک ایلسٹر۔” انھوں نے اپنا تعارف کرایا۔
"ارے آپ، فیونا کی ممی۔” شاہانہ چونک اٹھیں اور انھیں خوش آمدید کہا اور اندر مہمان خانے میں لے گئیں۔ "بلال نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا ہے، آپ سے ملنے کا مجھے بڑا اشتیاق تھا۔”
دونوں آمنے سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئیں، لیکن شاہانہ نے اچانک کہا: "میں آپ کے آنے سے پہلے اپنے لیے چائے بنا رہی تھی، میں ابھی لے کر آتی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ اٹھیں اور باورچی خانے چلی گئیں۔ مائری اس چھوٹے سے گھر کا جائزہ لینے لگیں۔ پہلی ہی نظر میں وہ شاہانہ کی سلیقہ مندی کی معترف ہو گئیں۔ ہر چیز سے صفائی اور سادگی کی جھلک نمایاں تھی۔ دروازے کی سامنے والی دیوار پر فریم میں ایک بڑی تصویر لٹک رہی تھی۔ اس تصویر میں ایک گاؤں کے پس منظر میں برف پوش پہاڑوں کا نہایت ہی دل پذیر منظر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اس تصویر میں نظر آنے والی جگہ کے متعلق سوچ کر حیران ہو گئیں۔ وہ اسے پہچان نہیں سکیں۔ گھروں کا طرز تعمیر ان کے لیے بالکل اجنبی تھا۔
"یہ ہمارے آبائی گاؤں کی تصویر ہے۔” شاہانہ نے اندر آتے ہوئے مائری کو تصویر میں گم دیکھ کر کہا۔ انھوں نے میز پر سینی رکھ دی اور دو پیالیوں میں کیتلی سے چائے انڈیلنے لگیں۔ مائری کیتلی کو دیکھ کر چونک اٹھیں۔ "ارے، میں نے آج تک اسکاٹ لینڈ میں اس طرح کی کیتلی نہیں دیکھی، یہ تو کوئی بہت قدیم لگ رہی ہے۔”
شاہانہ مسکرا دیں۔ انھوں نے ایک پلیٹ آگے کرتے ہوئے کہا: "یہ کشمش کے بسکٹ ہیں، بے حد ذائقہ دار ہیں۔ رہی بات اس کیتلی کی تو یہ میں پاکستان سے اپنے ساتھ لائی ہوں۔ یہ ہماری روایتی کیتلی ہے۔”
"بہت ہی شان دار ہے۔” مائری اس سے متاثر نظر آنے لگیں، پھر کچھ یاد آکر انھوں نے باسکٹ اٹھا کر میز پر رکھ دی۔ باسکٹ سے گل دستہ نکال کر شاہانہ کے حوالے کر دیا۔ "یہ میں نے اپنے باغیچے کے پھولوں سے بنایا ہے۔”
"شکریہ….!” شاہانہ نے گل دستہ وصول کرتے ہوئے کہا: "معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے باغیچے میں بہت سارے پودے اگائے ہیں۔”
"جی ہاں۔ میں نے کئی اقسام کی سبزیاں اور پھل بھی اگائے ہیں۔ کچھ اپنے ساتھ بھی لائی ہوں۔ دراصل میں نے سوچا کہ جب بلال اور آپ کا مہمان لوٹیں گے تو رات کے کھانے کے لیے کچھ زبردست قسم کی چیزیں موجود ہوں۔” مائری نے روانی میں کہہ دیا لیکن وہ دل ہی دل میں حیران ہونے لگیں کہ اس نے اتنی روانی سے مہمان کا ذکر کیسے کر دیا۔ "میرا مطلب ہے کہ …. آپ کے ہاں ایک مہمان آیا ہوا ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟” وہ گڑبڑا کر بولیں۔
شاہانہ مسکرا دیں۔ ان کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔ ” ہاں، ہاں… جونی تھامسن لندن سے یہاں آیا ہے۔ اچھا آدمی ہے۔ وہ بلال کے ہمراہ مچھلیوں کے شکار پر گئے ہوئے ہیں۔ آج رات آپ اور فیونا کا کیا پروگرام ہے؟ کیا آپ ہمارے ہاں آنا پسند کریں گی۔ رات کا کھانا ہمارے ساتھ ہی کھائیے، مہمان کے ساتھ بھی ملاقات ہوجائے گی، اور جتنی دیر چاہیں آپ ان سے مچھلی کے شکار کے قصے بھی سن سکتی ہیں۔”
مائری ہنس پڑیں۔ "تھامسن سے کل میری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ایک اچھا شخص لگتا ہے۔ میں رات کے لیے قیمہ اور آلو کا بھرتا بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اگر آپ کو پسند ہو تو میں وہ یہاں لے کر آ جاؤں!”
شاہانہ فوراً سمجھ گئیں کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ "ٹھیک ہے، آپ اطمینان کے ساتھ آ سکتی ہیں۔ جتنا چاہیں یہاں وقت گزاریں۔ ویسے آپ تو پہلے ہی سے اتنا کچھ لے کر آئی ہیں۔” انھوں نے باسکٹ کی طرف اشارہ کیا۔
(جاری ہے….)