نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
’’میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘ جبران بولا۔ ’’مجھے خود ہائیڈرا سے نفرت ہے، چلو یہاں سے بھاگتے ہیں۔‘‘
تینوں ایک بار پھر بھاگنے لگے۔ سیاہ آبسیڈین کی تلاش میں اس جزیرے پر آ کر وہ اب تک اتنا بھاگ چکے تھے کہ انھیں لگتا تھا زندگی بھر اتنا نہ بھاگے ہوں گے۔ کافی دور جا کر جبران نے مڑ کر دیکھا۔ ’’نہیں….‘‘ وہ چیخا۔ ’’وہ ہمارا پیچھا کر رہا ہے اور ہم سے کہیں زیادہ تیز دوڑ رہا ہے۔‘‘
’’ہمیں ساحل کی طرف جانا ہوگا۔‘‘ دوڑے دوڑتے فیونا نے کہا۔ ’’پتا نہیں ماربل کی ایک اینٹ سے کیسے اتنا بڑا عفریت بن گیا ہے۔ یہ یونانی اساطیر بھی بے حد عجیب ہیں۔‘‘
اچانک چرچ کی گنٹیاں بجنے لگیں۔ فیونا کو ایسا لگا جیسے وہ گھنٹیاں اسے روک رہی ہوں، اور وہ ایک دم رک گئی۔ اس نے دونوں کو آواز دے کر کہا: ’’ہم غلط راستے پر جا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہم چرچ میں زیادہ محفوظ رہیں، چلو اندر چلتے ہیں۔‘‘
’’کیاااا…. تم پاگل ہو گئی ہو کیا۔‘‘ جبران جھلا کر بولا۔ ’’ہم مڑ کر واپس نہیں جا سکتے۔ ہائیڈرا ہمیں آسانی سے شکار کر لے گا۔ تم دیکھ نہیں رہی ہو سانپوں کے سروں میں کتنے نوکیلے دانت ہیں۔ میں تو ان ماربل کے سانپوں سے نو بار ڈسنا ہرگز نہیں چاہتا۔‘‘
فیونا نے دیکھا کہ جبران کے چہرے پر مایوسی کے آثار چھا گئے ہیں اور وہ اس کے فیصلے سے متفق نہیں ہے۔ وہ بولی: ’’دیکھو جبران، میرا من کہہ رہا ہے کہ ہم چرچ میں زیادہ محفوظ رہیں گے۔ کیسے، یہ میں نہیں جانتی۔ اگر ہم اندر نہیں گئے تو یہ ہائیڈرا ہمیں پا کر مار ڈالے گا۔ اور ایسا ہونے جا رہا ہے۔ ہم اس کے پنجے سے کسی صورت نہیں بچ سکتے۔ اس نازک وقت پر تمھیں مجھ پر اعتماد کرنا ہوگا جبران۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ ہمیں اس قدیم بازنطینی چرچ کی طرف جانا چاہیے۔ چلو، ہم دوسرے راستے سے وہاں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
جبران اور دانیال نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیچھے دوڑنے لگے۔ وہ دونوں بے حد خوف زدہ تھے۔ اچانک دانیال کو پھنکار کی آواز سنائی دی۔ اس نے دوڑتے دوڑتے جبران سے کہا: ’’تم نے سنی یہ آواز، یہ تو بہت قریب سے آ رہی ہے۔‘‘
جبران اور فیونا نے بھی پھنکار کی آواز سن لی تھی۔ وہ چلائی: ’’وہ ہمارے بہت قریب پہنچ گیا ہے، اور تیز بھاگو۔‘‘
ماربل سخت تھا لیکن پتا نہیں پتھر کا یہ سانپ کیسے حرکت کر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ زمین پر رینگ نہیں رہا ہو بلکہ چند انچ اوپر ہوا میں تیر رہا ہو۔ فیونا نے کہا: ’’وہ دیکھو، چرچ کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے۔ ہم میں سے جو بھی سب سے آخر میں داخل ہو، وہ اپنے پیچھے دروازہ فوراً بند کر دے۔‘‘
جب وہ چرچ کے دروازے پر پہنچے تو سب سے پہلے جبران اندر داخل ہوا، اس کے پیچھے ہی فیونا اور پھر آخر میں دانیال داخل ہوا۔ فیونا اندر داخل ہوتے ہی چلائی تھی: ’’دانی دروازہ بند کر دو، جلدی کرنا۔‘‘
جبران دانیال کی مدد کے لیے تیار کھڑا تھا، دونوں نے عین اسی لمحے دروازہ بند کیا جب ہائیڈرا پہنچ گیا تھا۔ ’’اُف خدا، تم نے دیکھا فیونا، کتنا بھیانک چہرہ ہے اس کا۔‘‘ جبران تھوک نگل کر بولا۔
’’چلو اوپر چلتے ہیں، ہم وہاں زیادہ محفوظ ہوں گے۔‘‘ فیونا نے کہا اور تینوں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے گئے۔ وہ اس کھڑکی کے پاس آئے جہاں سے انھوں نے اینٹ نیچے پھینکی تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ ہائیڈرا کے تیز دانت چرچ کے چوبی دروازے میں گڑے ہوئے تھے اور وہ اسے چبا کر توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’بے فکر رہو، ہم یہاں محفوظ ہیں۔‘‘ فیونا نے ایک بار پھر انھیں تسلی دی۔ جبران نے تقریباً روتے ہوئے کہا: ’’لیکن وہ دروازے کو چبا چبا کر توڑ ڈالے گا اور ہمیں آسانی شکار کر لے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھڑکی سے ہٹا اور دیوار کے سہارے فرش پر بیٹھ گیا۔ اسے رونا آ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ گھر جانا چاہتا ہے۔
فیونا نے اس کی طرف دیکھا اور پھر جیب سے قیمتی پتھر نکال لیا۔ اس کے اندر ڈریگن کا نقش تھا۔ اس میں سے ہلکی ہلکی سی روشنی نکل رہی تھی۔ فیونا جبران کے سامنے فرش پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے تصور میں ایک عظیم الجثہ سیاہ ڈریگن دیکھا جس کی آنکھیں قیمتی پتھر کی مانند چمک رہی تھیں۔ وہ آسمان میں کہیں بادلوں سے نکلا اور غوطہ مار کر نیچے آیا اور پھر اپنے لمبے نوکیلے دانتوں میں عفریت ہائیڈرا کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گیا۔
’’ارے وہ دیکھو۔‘‘ یکایک جبران کی آواز فیونا کی سماعت سے ٹکرائی، اس کی آواز میں خوشی جھلک رہی تھی۔ ’’جلدی آؤ دانی، فیونا، ورنہ تم یہ منظر دیکھنے سے محروم رہ جاؤ گے۔ اوہ دیکھو، اتنا بڑا ڈریگن۔ اس کے پر یقیناً پچاس فٹ لمبے ہوں گے۔‘‘
اسی لمحے ان کے کانوں سے عجیب قسم کی کرخت آوازیں ٹکرانے لگیں۔ وہ دونوں دوڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔ باہر ایک بہت ہی بڑا سیاہ ڈریگن ہائیڈرا پر جھپٹ رہا تھا۔ اس کی پشت پر لمبے اور مضبوط کانٹوں والی ریڑھ کی ہڈی دم تک چلی گئی تھی اور اس کی لمبی دُم ہوا میں کسی کوڑے کی طرح لہرا رہی تھی۔ اس نے ہائیڈرا کو دانتوں میں دبوچا اور فضا میں بلند ہو گیا۔ ہائیڈرا اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا لیکن ڈریگن نے اپنی گرفت ذرا بھی ڈھیلی نہیں کی۔ کچھ ہی دیر میں دونوں آسمان کی وسعتوں میں کہیں گم ہو گئے۔ تینوں نے سکون کی سانس لی۔ وہ چند لمحوں تک خاموش رہے اور دل کی تیز دھڑکنوں کو قابو کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایسے میں فیونا نے انھیں چونکا دیا۔
(جاری ہے…)