نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
جونی تھامسن نے پانی سے بھرا گلاس مائری کو دیتے ہوئے پوچھا: ’’اب بتاؤ کیا ہوا تھا؟‘‘
ماہری بتانے لگیں: ’’جب میں کام سے گھر لوٹی تو دروازے کے پٹ کھلے ہوئے تھے۔ فیونا نے کہا تھا کہ وہ اپنے انکل کے گھر جائے گی، اس لیے میں جانتی تھی کہ گھر میں کوئی نہیں ہوگا، لیکن جب میں نے یہاں یہ تباہی دیکھی تو خیال آیا کہ کہیں وہ گھر واپس نہ آئی ہو اور کسی نے اندر داخل ہو کر اسے نقصان نہ پہنچایا ہو، یہ دیکھو نا انھوں نے کتنی بے دردی سے ہر چیز الٹ پلٹ کر کے رکھ دی ہے۔ حتیٰ کہ ریفریجریٹر سے بھی تمام چیزیں نکال کر نشست گاہ کے فرش پر پھینک دی ہیں۔ قالین پر سے یہ پگھلتی ہوئی آئس کریم اب کبھی صاف نہیں ہو سکی گی۔‘‘
’’مجھے نہیں لگتا کہ یہ نوجوان لڑکوں کے کسی گروہ نے کیا ہے، یہ سب کسی ایک سرکش آدمی کا کام ہے۔ کوئی ایسا شخص جو بے رحم ہے۔ کیا آپ جانتی ہیں کہ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے؟‘‘ جونی نے سارے کمرے گھوم کر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’گیل ٹے میں اس طرح کا کوئی بھی شخص نہیں ہے۔ ہاں میں نے آج بیکری میں کچھ افواہیں سنی ہیں۔ کسی چور نے ایلسے کے سرائے پر مہمانوں کو لوٹا۔‘‘ مائری نے گالوں پر آنسوؤں سے بنی لکیروں کو صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’میرے خیال میں آپ فوراً پولیس کو ٹیلی فون کر کے رپورٹ درج کرائیں۔‘‘ جونی بولا:’’آپ پولیس کو طلب کریں اور میں گھر کو صاف کرتا ہوں۔‘‘
مائری نے ایمرجنسی نمبر ڈائل کیا، کچھ ہی دیر میں پولیس پہنچ گئی۔ ’’کیا ہوا ہے مائری؟‘‘ آفیسر اینڈرسن نے کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’میں نے آج تک گیل ٹے میں اس قسم کی واردات کبھی نہیں دیکھی۔ یہ تو کوئی ذہنی مریض لگتا ہے۔‘‘
پھر آدھے گھنٹے تک پولیس رپورٹ لکھتی رہی، معلوم ہوا کہ گھر سے کوئی بھی چیز چوری نہیں ہوئی۔ آفیسر اینڈرسن کو اس پر حیرت ہوئی۔ آخر میں اس نے رپورٹ بک بند کر کے اٹھتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے مائری، جیسے ہی ہمیں کوئی خبر ملتی ہے ہم آپ کے پاس آ جائیں گے، تب تک آپ دروازہ بند کر کے رکھا کریں۔‘‘
’’دیکھو، میں نے بھی آپ سے یہی کہا تھا نا۔‘‘ جونی نے دروازے کے قریب کچرے سے بھری تھیلی پھینکتے ہوئے کہا۔ مائری نے بتایا کہ انھوں نے دروازہ بند کیا تھا، وہ کھڑکی سے اندر آیا ہوگا۔ جونی نے خیال ظاہر کیا کہ لگتا ہے اسے کسی چیز کی تلاش تھی لیکن نہ ملی تو غصے میں گھر کی چیزیں الٹ پلٹ دیں۔ اسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی، مائری نے جا کر دروازہ کھولا تو بلال اپنی بیگم شاہانہ کے ساتھ وہاں کھڑے تھے، ان کے ساتھ جونی کا بھائی جمی بھی تھا۔
’’جیسے ہی ہم نے سنا ہم چل پڑے۔‘‘ شاہانہ اندر آ کر بولیں: ’’ان کے لہجے میں مائری کے لیے بہت زیادہ ہمدردی تھی۔ واقعہ سننے کے بعد انھوں نے کہا: ’’ہم بھی گھر کو درست کرنے میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔‘‘
انھیں گھر پھر سے بحال کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ چوں کہ گھر میں کھانے کی کوئی چیز سلامت نہیں رہی تھی، اس لیے شاہانہ کے کہنے پر بلال واپس گھر جا کر رات کے لیے پکا ہوا کھانا اٹھا کر لے آئے، سب نے مل کر کھانا کھایا۔ مائری نے شاہانہ کو گلے لگا کر کہا: ’’آپ کا بہت بہت شکریہ، اچھا ہوا کہ فیونا کے آنے سے پہلے ہی گھر درست ہو گیا ورنہ وہ بہت خوف زدہ ہو جاتی۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ شاہانہ نے اپنائیت سے کہا: ’’بس اب اپنا خیال رکھیے۔‘‘
جونی نے اپنے بھائی کو مخاطب کیا: ’’جمی، تم بلال صاحب کے ساتھ جا کر یہاں کی روایتی تقریب کا مزا لو، میں یہاں رات کے لیے ٹھہر جاؤں گا، لیکن پہلے اینگس کے گھر سے ہوتے ہوئے جانا،‘‘
’’یہ آپ کی اچھائی ہے لیکن اس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ مائری بولیں۔
’’نہیں، اس کی ضرورت ہے۔‘‘ جونی نے جواب دیا۔ ’’وہ پاگل شخص کسی بھی وقت پھر آسکتا ہے۔‘‘
کچھ ہی دیر بعد بلال اور شاہانہ اپنے گھر، جب کہ جمی اینگس کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
(جاری ہے…)