اردو کے ممتاز ادیبوں، معروف اہلِ قلم اور مشہور روحانی شخصیات کی کتابوں میں ہمیں ماورائے عقل واقعات، ناقابلِ فہم اور حیرت انگیز قصائص پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کئی روایات اور ایسے واقعات کو بھی مشاہیرِ ادب نے اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے جو سینہ گزٹ سے زیادہ کچھ نہیں اور یہ قارئین میں تو بہت مقبول ہیں، مگر انھیں مستند یا مصدقہ نہیں کہا جاتا۔
یہاں ہم ملتان سے تعلق رکھنے والے ادیب ڈاکٹر سید زاہد علی واسطی خود نوشت ‘‘بیتی یادیں’’ سے ایک واقعہ نقل کررہے ہیں۔ اس ماورائے عقل اور حیرت انگیز واقعے کے راوی کی حیثیت سے مصنّف لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ سعید الدّین سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں پھر حیدرآباد دکن کا ذکر نکل آیا۔ چار مینارحیدرآباد کی نادر الوجود عمارتوں سے ایک ہے۔ سعید الدین صاحب گویا ہوئے ‘‘ان کے اندر کے راز میں آپ کو بتاتا ہوں۔ پہلی منزل پر مدرسہ تعلیم القرآن اور طلبہ کا دارالاقامہ ہے، دوسری منزل پر مسجد ہے۔ یہیں دو چھوٹے چھوٹے کمرے محمد حیات گھڑی ساز کی تحویل میں تھے۔ ایک میں اس کی رہائش تھی دوسرے میں ملازم رہتا تھا، محمد حیات ظاہراً گھڑیال کی نگہداشت کرتا اور مرمت وغیرہ پر مامور تھا۔
یہ بات مشہور تھی کہ چار مینار والے محمد حیات کے تابع جنات ہیں اور اس کے سب کام وہی کرتے ہیں، حتیٰ کہ ان کی ڈیوٹی جس میں گھڑیالوں کی صفائی ستھرائی، وقت کے مطابق مشینوں کو چالو رکھنا۔ مزید برآں ان کے کمرے کی صفائی کے علاوہ کھانا پینا سب کچھ انہی کے سپرد تھا۔ رات کے اوقات میں روزانہ تلاوت قرآن کی آوازیں دونوں حجروں سے سالہا سال سے آتی ہیں۔’’
سعید الدّین صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ اپنے والد صاحب کے ساتھ پہلی مرتبہ محمد حیات کے پاس گئے۔ والد صاحب نے جب محمد حیات کو اپنی باتیں بتائیں تو انہوں نے آنکھیں بند کیے رکھیں اور صرف ہونہہ کہا، پھر بولے انہیں سب معلوم ہو گیا۔ پھر کسی کا نام لیا کہ یہ آدمی ہے جس کی وجہ سے آپ پریشان ہیں۔ مطمئن رہیں دو دن بعد یہ آدمی یہاں سے چلا جائے گا۔ اس دوران ایک پستہ قد ملازم ایک پلیٹ میں انگور لے کر آگیا اور رکھ کر چلا گیا۔ سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے ہم نے دریافت کیا کہ ابا جی سردیوں میں انگور ہم نے پہلے کبھی نہیں کھائے، یہ ملازم کہاں سے لایا….؟
اس کے بعد انہوں نے ایک اور واقعہ سنایا جو ان کے والد کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ‘‘ایک شخص اندر کوٹ کے محلے میں رہتا تھا۔ ایک دن وہ ان کے والد کے پاس آگیا اور کوئی بات کرنے کے بعد بہت دیر تک روتا رہا تو والد صاحب اس شخص کو محمد حیات کے پاس لے گئے۔ شام کو جب والد صاحب گھر واپس آئے تو والدہ کے ساتھ میں بھی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے والدہ مرحومہ کو تفصیل سناتے ہوئے بتایا کہ پڑوسی نے سال سوا سال پہلے یہ مکان کرائے پر لیا تھا۔ یہ مکان مدتوں سے خالی پڑا ہوا تھا۔ مالک مکان نے کرایہ دار کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ مکان میں جن رہتے ہیں مگر مکان کا بہت معمولی کرایہ تھا اور خود جسمانی طور پر صحت مند ہونے کی وجہ سے وہ مکان اس شخص نے لے لیا۔ دونوں میاں بیوی اس مکان میں رہنے لگے۔
یہ شخص کسی بنیے کی دکان پر ملازم تھا جہاں سے وہ رات کو کافی دیر سے فارغ ہوتا اور گھر لوٹتا تھا۔ پہلی رات سوتے وقت انہیں محسوس ہوا کہ مکان کے صحن میں چہل پہل ہو رہی ہے۔ سخت سردی کا موسم تھا اور صحن میں کسی کے موجود ہونے کی توقع نہ تھی۔ پھر بھی انہوں نے کوٹھری کا دروازہ کھول کر باہر دیکھا تو صحن سے بچوں کے شور مچانے کی آوازیں آرہی ہیں۔ مگر انہیں دکھائی کچھ نہیں دیا۔ اس وقت تو وہ دونوں دروازہ بند کر کے سو گئے مگر صبح اٹھتے ہی انہوں نے مالک کو سب بیان کر دیا مگر اس نے کوئی حوصلہ افزا جواب نہ دیا۔
ایک دن اس شخص کی بیوی نے شوہر کو بتایا کہ تمہارے چلے جانے کے بعد کمروں اور غسل خانے کے دروازے خودبخود کھلنے اور بند ہونے لگے اور دھڑا دھڑ کی آوازیں آنے لگیں جیسے شدید آندھی چل رہی ہو۔
اس کے بعد اس قسم کے واقعات روز ہی ہونے لگے۔ کبھی ڈلیا میں سے روٹیاں غائب ہو جاتیں کبھی ہانڈی کے اندر سے بوٹیاں۔ ایک دن وہ صحن میں جھاڑو دے رہی تھی تو اسے ایسا لگا کہ جیسے کوئی باورچی خانے کے برتن پھینک رہا ہو۔ جب وہ ڈرتے ڈرتے باورچی خانے میں گئی تو سب برتن زمین پر گرے پڑے تھے۔ وہ ڈر کے مارے اندر کوٹھری میں جا چھپی۔
یکایک اس کا ٹین کا صندوق زمین پر سے خودبخود اٹھا اور چھت سے جا لگا۔ کوئی نادیدہ قوت اسے اوپر اٹھا رہی تھی۔ پھر وہ صندوق فرش پر گر پڑا اور اس میں سے سب کپڑے نکل کر اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ بے ہوش ہو گئی۔ جب اسے ہوش آیا تو شام ہو رہی تھی اور ڈر اور خوف کی وجہ سے وہ اس قابل نہ تھی کہ روٹی ہانڈی کر سکتی۔
اس پڑوسی کو لے کر والد صاحب محمد حیات کے پاس گئے تھے تاکہ اس کا یہ مسئلہ حل ہوسکے۔ اس نے محمد حیات کو سب واقعات سنائے۔ انہوں نے تسلی دی اور اس شخص کے ساتھ اپنا ملازم بھیجاکہ جا کر دیکھے دراصل کیا معاملہ ہے….؟
محمد حیات کا ملازم اس پڑوسی کے گھر آیا اور کوٹھری میں جا کر دو چھتی پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اسے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آوازیں دیر تک سنائی دیتی رہیں۔ گھنٹہ بھر کے بعد ملازم خاموشی سے اُتر کر گھر سے چلا گیا۔ اس کے بعد انہیں کبھی کوئی شکایت نہ ملی نہ کسی قسم کا نقصان ہوا۔