نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس دل چسپ ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
فیونا نے جواب دینے والی تھی کہ دانیال اس سے پہلے ہی بول پڑا: ’’گھبراؤ نہیں، تم اتنی جلدی کیوں خوف زدہ ہو جاتے ہو۔ پمفلٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ جولفر نامی کشتی ایک جدید ترین کشتی ہے، دیکھو یہ نئی بھی لگتی ہے۔ اس میں ایک کیفے ٹیریا ہے اور ایک فلمی تھیٹر بھی۔ اگر ہم چاہیں تو عرشے پر بیٹھ کر ڈولفنوں اور وھیل کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ سمندر بہت پرسکون دکھائی دے رہا ہے، اس لیے آج ہواؤں کا کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے، لہریں بھی چھوٹی چھوٹی ہیں۔‘‘
فیونا حیرت سے دانیال کی طرف دیکھنے لگی۔ ’’واہ تم تو بہت اچھی باتیں کرنے لگے ہو۔‘‘
’’بس یہ تو تم لوگوں کا اثر ہے۔‘‘ دانیال نے قہقہہ لگایا۔ تینوں ہنسی مذاق کرتے ہوئے عرشے پر چڑھ کر سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ ’’دانی تمھارے پاس جو گائیڈ بک ہے، اس میں تھورلیکشوف کے متعلق بھی تو کچھ لکھا ہوگا، ذرا مجھے سنانا کیا لکھا ہے؟‘‘ فیونا نے اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے پوچھا۔
دانیال پمفلٹ کھول کر پڑھنے لگا: ’’اس میں لکھا ہے کہ یہ چھوٹا سا شہر جنوبی ساحل پر ہے اور اس کا نام ایک بزرگ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہاں سے مچھلی اور پومس برآمد کیے جاتے ہیں۔ تھورلیکشوف میں آئس بلو کے نام سے ایک واٹر پلانٹ بھی ہے جہاں منرل واٹر تیار کیا جاتا ہے۔‘‘ جبران نے پوچھا کہ یہ پومس کیا ہے، تو فیونا حیران ہو کر بولی: ’’اے تم نہیں جانتے، میں تو سمجھ رہی تھی کہ تم بہت کچھ جانتے ہو، بہرحال، یہ ایک قسم کا خاکی رنگ کا ہلکا سا آتش فشانی پتھر ہے۔ اسے پیس کر مختلف چیزوں کو مہین بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور یہ دراصل لاوے سے بنتا ہے۔‘‘
اسی وقت کشتی کا انجن چالو ہو گیا، اور ذرا دیر بعد کشتی سمندر میں اپنی منزل کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ ابھی انھوں نے آدھے گھنٹے ہی کا سفر طے کیا تھا کہ جبران کے ساتھ ساتھ فیونا کی طبیعت بھی خراب ہونے لگی۔ پھر جیسے ہی اس کی توجہ لہروں پر چلی گئی تو وہ خوف زدہ ہو گئی۔ ’’لہریں تو بہت بڑی ہیں۔ کک… کک … کیا جبران نے درست کہا تھا اور … یہ کشتی ڈوب جائے گی؟‘‘
دانیال کا حال بھی ان دونوں کی طرح تھا۔ سمندر میں یہ ان کا پہلا سفر تھا اس لیے انھیں متلی ہونے لگی تھی، اور سر چکرانے لگا تھا۔ دانیال بولا:’’ میرا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے فیونا لیکن تم اس طرح کی بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ لہریں اتنی بھی بڑی نہیں ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا پیٹ پکڑا اور اٹھ کر جنگلے کے پاس جا کر اپنی توجہ ہٹانے لگا۔
’’یہاں آؤ، میں نے قاتل وھیل دیکھ لیے ہیں۔‘‘ اس نے مڑ کر دونوں کو پکارا۔ دونوں کِلر وھیل کا سن کر عارضی طور پر اپنی تکلیف بھول گئے اور جنگلے کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ ’’ارے وہ رہے کلر وھیل۔‘‘ جبران خوشی سے چلایا۔ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ پانی کے اس خطرناک جانور کو اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اسے جو کم زوری محسوس ہو رہی تھی، وہ پل بھر میں غائب ہو گئی تھی۔ فیونا بھی دل چسپی سے وھیل کو دیکھ رہی تھی جو بڑی تعداد میں تھیں اور کشتی کے ساتھ ساتھ ہیمے کی طرف سفر کر رہی تھیں، اور جن پر لمبی اور رنگین چونچوں والے پرندے پفن بہت بڑی تعداد میں بیٹھے ہوئے تھے۔
فیونا چلائی: ’’وہ دیکھو، یہ ہیمے ہے اور لاوا بہہ رہا ہے۔ یہاں آتش فشاں پہاڑ ہے اور وہ رہے کالے پتھر۔ میری دعا ہے کہ جب تک ہم یہاں ہیں یہ نہ پھٹے۔‘‘
’’افوہ، فیونا ایک تو تم دونوں بہت جلد پاگل پن کی باتیں کرنے لگ جاتے ہو۔‘‘ دانیال جھلایا۔ ’’یہ تو ایک پیارا جزیرہ ہے، یہ دراصل ویسٹ مین جزائر کا ایک حصہ ہے اور یہاں کے لوگ اسے ویسٹ مانیار کہتے ہیں، جب کہ ہیمے ایک آتش فشانی جزیرہ ہے۔ اور کیا تم یہ یقین کرو گے کہ ایک دن یہاں قزاق آئے اور یہاں کی تمام عورتیں اور لڑکیاں اغوا کر کے لے گئے؟‘‘
(جاری ہے….)