آسٹریلیا میں جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی ناقص پرفارمنس پر سابق کھلاڑیوں اور کرکٹ تجزیہ کاروں نے پی سی بی چیئرمین پر کڑی تنقید کی ہے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’’اسپورٹس روم‘‘ میں میزبان نجیب الحسنین نے اور شرکا سابق کپتان یونس خان، کامران اکمل، اسپورٹس اینالسٹ شعیب جٹ اور آسٹریلیا میں کوریج کے لیے موجود نمائندہ خصوصی شاہد ہاشمی نے قومی ٹیم کی ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں ناقص کارکردگی پر جہاں کئی سوالات اٹھائے وہیں چیئرمین پی سی بی رمیز راجا کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
پروگرام کے میزبان نجیب الحسنین نے یونس خان سے سوال کیا کہ چیئرمین پی سی بی رمیز راجا جو پہلے ہمیشہ آسٹریلیا کی مثال دیتے تھے، وہ اب کہتے ہیں کہ بٹن دبا کر آسٹریلیا نہیں بن سکتے؟ آپ اس پر کیا کہتے ہیں۔
جس پر یونس خان نے جواب دیا کہ سسٹم سے باہر ہوتے ہوئے بولنا بہت آسان ہوتا ہے، لیکن جب سسٹم میں آتے ہیں تو پھر بہت مشکل ہوتا ہے، بہت سے لوگوں کے پاس پاور آتی ہے تو تبدیلی لاسکتے ہیں لیکن نہیں لاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ رمیز راجا جو خود کو ون مین آرمی کہتے تھے جب وہ چیئرمین پی سی بی بنے تو ان کے پاس اختیارات تھے کہ تبدیلی لاتے لیکن بات وہی ہے کہ تبدیلی صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے آتی ہے اتنے بڑنے منصب پر فائز شخص کو کوئی بھی بات کرنے سے قبل سوچنا چاہیے۔
یونس خان نے مزید کہا کہ کوشش تو کی جا رہی ہے آج دیکھیں کہ ہمارے بولنگ کوچ شان ٹیٹ اور مینٹور میتھیو ہیڈن دونوں آسٹریلوی ہیں۔
اس موقع پر اسپورٹس اینالسٹ شعیب جٹ نے رمیز راجا پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سوچ اٹیکنگ نہیں بلکہ دفاعی ہے، ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی پر اب سب مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں، نئی نئی تاویلیں پیش کر رہے ہیں لیکن یہ سب ٹیم کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ کرسی کو بچانے کے لیے ہے۔
شعیب جٹ نے اپنی گفتگو میں دعویٰ کیا کہ کرسی جا رہی ہے اس لیے اب ساری تگ ودو کرسی کو بچانے کے لیے ہی ہوگی۔
آسٹریلیا میں کوریج کے لیے موجود نمائندہ اے آر وائی شاہد ہاشمی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مڈل آرڈر مسلسل ناکام جا رہا ہے لیکن المیہ ہے کہ چاہے کپتان ہو، ہیڈ کوچ یا چیئرمین پی سی بی سب نے مڈل آرڈر کے بارے میں کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں اور یہ ماننے کو تیار ہی نہ ہوئے کہ مڈل آرڈر بہت کمزور ہے۔
شاہد ہاشمی نے کہا کہ ہم ہمیشہ آسٹریلیا میں مشکلات کا شکار رہتے ہیں ہم نے آخری ٹیسٹ 1995 میں جیتا تھا، اس کے بعد یونس خان اور مصباح الحق جیسے عظیم کھلاڑیوں کے باوجود وہاں ٹیسٹ میچ نہیں جیت سکے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم وہاں کی کنڈیشن نہیں سمجھ پاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم اپنی انڈر 15، انڈر نائنٹین اور اے ٹیمیوں کو زیادہ سے زیادہ آسٹریلیا کے دورے کراکے وہاں کی کنڈیشن سے ہم آہنگ نہیں کرینگے، ہم یوں ہی پریشان رہیں گے۔