نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
فیونا ٹوٹی ہوئی چٹانوں پر چڑھ کر غار کے اندھیرے سے روشنی میں آ گئی۔ پفن نامی پرندوں کی تلاش میں وہ پہاڑوں کی طرف احتیاط سے دوڑنے لگی۔ اسے معلوم تھا کہ پفن پہاڑی کی کھڑی چٹانوں سے لٹکے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے وہ سب سے قریبی کھڑی چٹان کو ڈھونڈنے لگی۔ راستے میں آنے جانے والوں سے پوچھنے کے بعد فیونا ایک کھڑی چٹان کی طرف دوڑ پڑی۔ پتھروں اور سبزے والی جگہوں سے گزرنے کے بعد جب وہ کھڑی چٹان کے اوپر پہنچ گئی تو رک کر اپنی بے ترتیب سانسیں درست کرنے لگی۔ حواس بحال ہوئے تو پفن نامی پرندوں کو وہاں دیکھ کر خوش ہو گئی۔ وہ پیٹ کے بل لیٹ کر احتیاط سے کھڑی چٹان کے اوپری کنارے پر پہنچ گئی۔ ہزاروں فٹ نیچے سمندر کو دیکھ کر اس کے بدن میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور وہ چٹان پر لیٹے لیٹے پریشانی کے عالم بڑبڑانے لگی: ’’میں اب ان پرندوں کو اپنے پیچھے کس طرح لگا لوں؟ کیا کوئی میری مدد کر سکتا ہے کہ میں کیا کروں؟‘‘
سمندر کی لہریں چٹان کی دیوار سے مسلسل ٹکرا رہی تھیں۔ اس ٹکراؤ میں ایک عجیب سی دھن تھی، ایک آہنگ تھا۔ یہ دھن اور آہنگ وہ ہوا کے ذریعے اوپر تک پہنچنے والے ننھے چھینٹوں کے ساتھ سن رہی تھی۔ اسے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا لیکن سوچتے سوچتے وہ بے خیالی میں منھ سے سیٹی کی مانند ویسے ہی دُھن نکالنے لگی جو سمندر کی لہریں چٹان سے ٹکرانے سے پیدا ہو رہی تھی۔
’’ہیں … یہ دھن میں بھلا کیوں گنگنانے لگی ہوں، مجھے تو آتا بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ تعجب سے بڑبڑائی۔ لیکن اس نے وہ دھن گنگنانا نہیں چھوڑا۔ ایسے میں اچانک چند پرندے اڑ کر چٹان کی چوٹی پر آ گئے، اور فیونا انھیں دیکھ کر حیرت کے مارے اچھل پڑی۔
’’ارے یہ تو کمال ہو گیا، یعنی مجھے ہیملن کا پچرنگی بانسری بجانا والا بننا پڑے گا، جب میں سیٹی بجاؤں گی تو یہ پرندے میرے پیچھے پیچھے اڑ کر آئیں گے۔ اگرچہ میری سیٹی اتنی اصلی نہیں ہے تاہم یہ اثر کر رہی ہے۔‘‘
فیونا زیادہ بلند آواز سے وہ مخصوص دھن منھ سے نکالنے لگی اور اس نے دیکھا سیکڑوں پرندے اڑ کر آئے اور آس پاس گھاس پر بیٹھ گئے۔ فیونا خوشی سے چہکنے لگی: ’’بہت خوب میرے پیارے پرندو، مجھے تمھاری دھاری دار چونچیں اور نارنجی پنجے بے حد پسند ہیں، ٹھیک ہے اب تم سب میرے پیچھے آؤ۔‘‘
فیونا پہاڑی سے اتر کر گنگنانے لگی اور سیکڑوں کی تعداد میں آنے والے پرندے جلد ہی ہزاروں کی تعداد میں بدل گئے۔ وہ لاوا غار کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ چلتے چلتے وہ بڑبڑائی: ’’جس نے بھی میری مدد کی ہے، اس کا بہت بہت شکریہ۔‘‘
غار کے پاس پہنچ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو سحر زدہ ہو گئی۔ اس نے خود کلامی کی: ’’اوہ یہ تو ایک لاکھ ہوں گے۔ لیکن اب مزا آئے گا، میری یہ پرندوں کی فوج درندوں کی ایسی تیسی کر دے گی۔‘‘
وہ پرندوں کے سامنے اس طرح کھڑی تھی جیسے کوئی کمانڈر اپنی فوج کے آگے تن کر کھڑا ہوتا ہے۔ اس نے بلند آواز میں کہا: ’’میں تم سب سے ایک کام لینا چاہتی ہوں، یہ سوراخ تم سب کو نظر آ رہا ہے نا۔‘‘ فیونا نے انگلی سے غار کے دہانے کی طرف اشارہ کیا۔ ’’اگر تم اس کے اندر اڑ کر جاؤ گی تو تمھیں اندر چار عدد ٹرال ملیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم سب ان پر حملہ کر دو۔ ان کی موٹی ناکیں، ان کے بد نما انگوٹھے، ان کی آنکھیں، کان اور جو کچھ تم چاہو نوچ لو۔ اور اس وقت تک انھیں نوچتے رہو جب تک وہ غار سے باہر نہ نکلیں۔ کیا تم سب میری بات سمجھ گئے ہو؟‘‘
کوئی بھی پرندہ الفاظ میں تو کچھ نہ کہہ سکا البتہ انھوں نے اپنی مخصوص آوازوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ فیونا غار کی طرف بڑھنے لگی، دہانے پر پہنچ کر وہ مڑی اور کہا: ’’ابھی باہر ٹھہرو تم سب، میں پہلے اندر جا کر دانیال کو بتاتی ہوں، جب میں گانے لگوں تو تم سب اندر آ کر ٹرالز پر حملہ کر دینا۔ اس دوران میں اور دانیال مل کر جبران کو آزاد کر کے بھاگ جائیں گے، اب میں اندر جاتی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی جب کہ پرندے غار کے دہانے پر منڈلانے لگے۔ دانیال نے اسے اندر آتے دیکھا تو اس کی جان میں جان آ گئی۔’’اوہ فیونا تم واپس آ گئی، میں بہت ڈرا ہوا تھا کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا اس دوران، کیا تم مدد لے آئی ہو؟‘‘
فیونا نے کہا کہ جو میں لے کر آئی ہوں اس پر تم کبھی یقین نہیں کر پاؤ گے۔ میرے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں پرندے ہیں، تم یہیں ٹھہرو ذرا۔ پھر وہ غار میں بے خوفی کے ساتھ آگے بڑھی، اس نے دیکھا تینوں ٹرالز نے آگ بھڑکا دی تھی اور اب لکڑی کے ٹکڑے کاٹ رہے تھے۔ اس نے انھیں بہادری سے للکارا: ’’ہیلو گندے اور بدبودار درندو، میں تم سے بالکل نہیں ڈرتی۔‘‘
دانیال کو یہ دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ ایک بدلی ہوئی فیونا کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ جبران نے بھی آنکھیں گھما کر ان کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔ ’’فیونا … تم کیا کرنے والی ہو؟‘‘ جبران کی چیخ وسیع غار میں انھیں ایک سرگوشی کی طرح سنائی دی۔ ٹرال کو شاید اس کا بولنا اچھا نہیں لگا اس لیے اس نے اپنا بھاری بھر کم پیر فرش پر پڑے جبران کی پیٹھ کر رکھ دیا۔ جبران کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ فیونا غصے میں چلائی: ’’بے وقوف درندو، تم میرے دوست کو لنچ سمجھ کر نہیں کھا سکتے، میں تم سب کا بندوبست کر کے آئی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ گنگنانے لگی اور ٹرال غضب ناک ہو کر فیونا کی طرف بڑھنے لگے۔
(جاری ہے)