یتیم خانے کے انچارج نے مجھے بتایا، ’’ان سب بچّوں کے ماں باپ مَر چکے ہیں۔‘‘
’’افسوس!‘‘
’’افسوس کی کوئی بات نہیں۔ ہم انہیں پالیں پوسیں گے۔ انہیں کام سکھائیں گے، انہیں با روزگار بنائیں گے، ان کی شادیاں کریں گے۔ ان کے بچّے پیدا ہوں گے۔‘‘
’’اور پھر ان میں سے کئیوں کے بچّے یتیم ہوجائیں گے۔ افسوس!‘‘
’’افسوس کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ ہم انہیں پھر یتیم خانے میں داخل کر دیں گے۔ آپ شاید نہیں جانتے کہ ہمارا یتیم خانہ گزشتہ ایک سو سال سے قائم ہے اور بڑی کام یابی سے چل رہا ہے۔‘‘
(اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار فکر تونسوی کے قلم سے)