تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

زبان اور اندازِ بیان

دنیا کی مختلف زبانیں‌ سیکھنے والوں کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہوتا کہ وہ اس کے قواعد، املا اور رسمُ‌ الخط سے واقف ہوجائیں‌ بلکہ کسی بھی زبان کو خوب خوب سیکھنے کے ساتھ اس کے مختلف لب و لہجوں اور مقامی لوگوں کے اندازِ بیاں کو بھی سمجھنا ضروری ہوتا ہے، لیکن یہ بہت مشکل ہے کہ کوئی غیرمقامی اور دور دراز کا رہنے والا سلیس اور بامحاورہ زبان بول اور اچھی طرح سمجھ سکے۔

یہاں ہم ایک مشہور واقعہ آپ کی دل چسپی کے لیے پیش کررہے ہیں جو ممتاز ادیب اور نقاد آل احمد سرور نے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا۔

ایک انگریز افسر نے اپنی ملازمت کے دوران کسی منشی سے فارسی اور اردو پڑھی۔ جاتے وقت ان سے کہا کہ میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک سرٹیفکیٹ دیجیے تاکہ کوئی دوسرا افسر آئے تو اسے بھی پڑھا سکوں۔ چنانچہ ان انگریز افسر نے ایک سرٹیفکیٹ دیا جس میں ان (منشی) کی علمی قابلیت کی بڑی تعریف کی تھی۔ اس سرٹیفکیٹ کو لے کر یہ منشی جی نئے افسر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس نے پڑھ کر ان سے کہا کہ صاحب نے تمہاری بڑی تعریف کی ہے۔ تم بڑا قابل ہے۔ انہوں نے حسبِ دستور جواب دیا کہ یہ صاحب کی ذرّہ نوازی ہے، میں کس قابل ہوں۔

انگریز افسر یہ سمجھا کہ منشی جی نے پرانے افسر کو دھوکہ دیا ہے اور حقیقت اب ظاہر کر دی ہے۔ اس نے اس پرانے افسر کو لکھا کہ منشی تو خود اپنی نالائقی کا اعتراف کرتا ہے۔ تم کیسے اس کی تعریف کرتے ہو۔ تب اسے یہ جواب ملا کہ وہ واقعی بہت قابل ہے۔ یہ صرف اس علاقے کے لوگوں کا اندازِ بیان ہے۔

Comments

- Advertisement -