جنگ، جیو گروپ کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں اے آر وائی نیوز کے سی ای او سلمان اقبال اور سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان کے خلاف اپنی درخواست واپس لے لی گئی، عدالت نے کھرا سچ پروگرام پر حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کردی۔
جسٹس خالد محمود خان نے کیس کی سماعت کی، جیو گروپ کے وکیل نے اے آر وائی نیوز کے سی ای او سلمان اقبال اور مبشر لقمان کے خلاف اپنی درخواست واپس لیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ہم نے کیس صرف پیمرا کے خلاف دائر کیا ہے، جس سے اے آر وائی نیوز اور مبشر لقمان کا کوئی تعلق نہیں۔
وکیل اے آر وائی اعتزاز احسن نے کہا کہ جیو چاہتا ہے کہ ملک بھر میں کوئی اس کے خلاف زبان نہ کھولے، یہ عجیب قسم کی روایت ڈالنا چاہتا ہے کہ ایک ہائیکورٹ سے ریلیف نہ ملے تو دوسرے ہائیکورٹ سے رجوع کیا جائے، اگر جیو سچ کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو قصور جیو کا ہے، اے آر وائی کا نہیں۔
اعتزاز احسن نے دلائل دئیے کہ مختلف ہائیکورٹس میں اے آر وائی نیوز اور مبشر لقمان کے مختلف پتہ لکھ کر درخواستیں دائر کی گئیں، کیا یہ بدنیتی نہیں کہ ایک شخص کراچی اور اسلام آباد کا رہائشی نہیں لیکن اسے وہاں کا رہائشی ظاہر کیا جاتا ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ جیو اپنے حقوق کی بات تو کرتا ہے مگر چاہتا ہے کہ اے آر وائی نیوز کا چینل ہی بن کردیا جائے، اگر جیو قتل بھی کردے تو کیا اس کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائی جائے، جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دئیے کہ جیو جو کہتا ہے اسے کہنے دیں، فیصلہ تو عدالتوں نے حقائق کے مطابق کرنا ہے، کاروبار کرنا کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے، اسے اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
اعتزاز احسن نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہتک عزت کا کیس صرف ماتحت عدالتوں میں سنا جاسکتا ہے، ہائیکورٹ میں نہیں، ویسے بھی ہتک عزت کا کیس جھوٹے الزامات پر بنتا ہے، کھرا سچ میں تو تمام ثبوت دکھائے جاتے ہیں، سچ اور مفاد عامہ کے لئے حقائق کو منظر عام پر لانے میں کوئی قدغن نہیں۔
جسٹس خالد محمود خان نے کہا کہ کسی کو بابا کہہ دینا کوئی بری بات تو نہیں، غلیظ یا گندہ بابا کہنا برحال غلط بات ہوگی، اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ جیو گروپ اب اے آر وائی نیوز کے سی ای او سلمان اقبال اور مبشر لقمان کے خلاف کیس واپس لے کر عدالت کے ذریعے کوئی ریلیف لینا چاہ رہا ہے، جیو کا کیس قابل سماعت نہیں، لہذا مسترد کیا جائے، عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنے کے حوالے سے متفرق درخواست دی گئی ہے جس کا مرکزی کیس میں ذکر ہی نہیں،
جسٹس خالد محمود نے کہا کہ کوئی چینل عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنے کے خلاف درخواست دائر نہیں کرسکتا، لاہور ہائیکورٹ نے جیو جنگ گروپ کی جانب سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام کھرا سچ کیخلاف حکم امتناعی دینے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے پیمرا سے جواب طلب کرلیا، عدالت نے قرار دیا کہ قوانین کے مطابق کھرا سچ کو روکنے کیلئے عبوری حکم جاری نہیں کیا جاسکتا۔