اردو میں آپ بیتیوں، سوانح، شخصی خاکوں اور رفقا یا ہم عصر اہلِ قلم کی یادداشتوں پر مبنی کتب میں ہمیں مشاہیرِ ادب اور معروف ہستیوں کی زندگی اور ان کی شخصیت سے متعلق اکثر نہایت پُرلطف اور یادگار واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ شاعرِ مشرق اور ان کا قرب پانے والے سرسیّد احمد خان کے پوتے سر راس مسعود سے متعلق ایسا ہی واقعہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی شہرہ آفاق کتاب ’’بالِ جبریل‘‘ جب منظر عام پر آئی، تو انہوں نے سر راس مسعود کو ایک جلد پیش کی اور کتاب پر اپنے دستخط ثبت فرما دیے۔
بیگم مسعود اس وقت موجود تھیں، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا کلام ان سے بہتر میں سمجھتی ہوں اور کتاب آپ ان کو عنایت فرما رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب اس فقرے سے بہت محظوظ ہوئے اور دونوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میں اپنا شعر سناتا ہوں، تم میں سے جو کوئی اس کی زیادہ صحیح اور بہتر تشریح کرے گا وہی اس کتاب کا مستحق قرار پائے گا، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنا یہ شعر پڑھا؎
یہ مصرع لکھ دیا، کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گِر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا
سر راس مسعود اور ان کی بیگم صاحبہ دونوں نے اپنے اپنے الفاظ میں اس شعر کا مفہوم بیان کیا، لیکن وقت کی بات کہ بیگم راس مسعود کی شرح و ترجمانی زیادہ بہتر اور شاعر کے مافی الضمیر سے قریب تر نکلی۔
چناں چہ ڈاکٹر صاحب نے ’’بالِ جبریل‘‘ کے سرورق پر راس مسعود کا لکھا ہوا نام کاٹ کر ’’بیگم راس مسعود‘‘ لکھ دیا اور کتاب ان کو دے دی۔
(شاعرِ مشرق سے چند ملاقاتوں کی یادداشت)