پیر, دسمبر 23, 2024
اشتہار

پچاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

ساحل کی ریت پر لہریں بڑھ بڑھ کر ان کے قدموں کو چھو رہی تھیں۔ جبران اپنے ارد گرد پھیلے حسن کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ اس نے زندگی میں کبھی ایسا سمندر نہیں دیکھا تھا جو سبز مائل نیلا ہو۔ ’’خوب، ہم ضرور ہوائی میں ہیں۔‘‘ اس نے اعلان کیا، لیکن فیونا نے کہا کہ اس نے ہوائی کی تصاویر پوسٹ کارڈز پر دیکھی ہیں اور وہ ایسی بالکل نہیں تھیں۔ فیونا نے ارد گرد نگاہیں دوڑا کر مسکراتے ہوئے کہا: ’’میرے خیال میں ہم سیچلز میں ہیں۔‘‘

- Advertisement -

’’یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟‘‘ جبران اس کی طرف مڑا۔ فیونا نے بدستور مسکرا کر جواب دیا: ’’ضرور کہہ سکتی ہوں، کیوں کہ وہ دیکھو، سامنے ایک نوٹس بورڈ لگا ہے، جس پر لکھا ہے کہ ہم روے زمین پر سب سے خوب صورت جگہ یعنی سیچلز میں ہیں، اور ہم جزیرہ ماہی کے ساحل پر ہیں۔‘‘

دانیال حیران ہوا، اور پوچھ بیٹھا کہ فیونا کو یہ معلومات کہاں سے ملیں۔ فیونا نے پھر مسکرا کر کہا کہ یہ بھی اسی بورڈ پر لکھا ہوا ہے۔ دانیال نے اس کے بعد بورڈ پر نگاہ دوڑائی تو اسے پورا نقشہ نظر آ گیا، جبران بھی قریب جا کر پڑھنے لگا۔
’’اس ساحل کو پریوں کا دیس کہا جاتا ہے … اوہ … تو کیا یہاں آئس لینڈ کی طرح پریاں ہیں؟‘‘ جبران منھ بنا کر چونک اٹھا۔ دراصل آئس لینڈ پر پریوں کے ساتھ ٹرالز بھی تھے، اس لیے اب پریوں کا خیال بھی اس کے لیے کوئی خوش نما نہیں رہا تھا۔ فیونا نے جلدی سے کہا: ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہاں ہمارا سامنا ٹرالز سے ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں اسے پریوں کا دیس اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں کی ریت ایسی چمکتی ہے جیسے پری، یا شاید کسی اور وجہ سے ایسا کہا جاتا ہو، بہرحال چلو سیپیاں چنتے ہیں۔‘‘

فیونا ساحل کی طرف دوڑی اور سیپیاں اٹھا کر جیب میں ڈالنے لگی۔ دانیال نے جوتے اتارے اور خوشی سے چلاتے ہوئے سمندر کی طرف دوڑ لگا دی۔ اس نے بتایا کہ پانی اچھا خاصا گرم ہے۔ تینوں سامنے دیکھنے لگے، سورج کی کرنیں لہروں پر پڑنے لگی تھیں، اور یہ منظر بڑا ہی دل فریب تھا۔ جبران کو شرارت سوجھی تو اس نے دانیال کو دھکا دے کر پانی میں گرا دیا اور اس کے کپڑے بھیگ گئے، اس پر فیونا نے اسے بری طرح ڈانٹا۔ کچھ دیر بعد تینوں ٹاؤن جانے کا راستہ تلاش کرنے لگے۔ وہ ساحل سے سڑک پر آ گئے، کنارے کھڑے انھیں کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک کار وہاں سے گزری۔ انھوں نے جلدی سے کار کو رکنے کا اشارہ کیا، جس میں ادھیڑ عمر میاں بیوی بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کار روکی تو جبران نے آگے بڑھ کو پوچھا: ’’کیا آپ ہمیں ٹاؤن تک لے جاسکتے ہیں؟‘‘
انھوں نے ان پر ایک نگاہ ڈالی اور پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے کہا، ان کے اندر بیٹھتے ہی کار چل پڑی۔ ادھیڑ عمر ڈرائیور کا نام بوٹلی تھا، انھوں نے خشک لہجے میں پوچھا: ’’مجھے حیرت ہے کہ تین بچے بن ماں باپ اس جیسی جگہ گھومتے ہوئے آ نکلے ہیں۔ فیری لینڈ ساحل پر آخر تم لوگوں کا کیا کام تھا؟ اور تمھارے والدین کہاں ہیں؟‘‘

جبران اور دانیال چپ رہے۔ فیونا نے پہلے ہی سے اس قسم کے سوال کا جواب تیار رکھا ہوا تھا، اس لیے وہ بولی: ’’انھوں نے کافی دیر پہلے یہاں اتار دیا تھا، اب ہم ساحل پر تھک گئے ہیں اور ان کا انتظار کیے بغیر اپنے ہوٹل جانا چاہتے ہیں۔‘‘
بوٹلی نے حیرت سے کہا: ’’اوہ گاڈ، پتا ہے تم لوگ ٹاؤن سے کتنے دور ہو، میرے خیال میں تم لوگ وکٹوریہ میں ٹھہرے ہوئے ہو نا؟‘‘ ’’وکٹوریہ؟‘‘ فیونا نے سوالیہ انداز میں کہا۔

’’جی ہاں، مرکزی ٹاؤن، یقیناً آپ کو اپنے ہوٹل کا نام یاد ہوگا۔‘‘ بوٹلی کی بیوی نے اپنی طرف کی کھڑکی کا شیشہ چڑھاتے ہوئے پوچھا۔ ’’یہ تو اچھا ہوا کہ میں نے لانگ ڈرائیونگ پر نکلنے کی خواہش کی تھی، ورنہ اس طرف تو لوگ نہیں آتے، تم لوگوں کو اپنے والدین کے آنے کے لیے بہت انتظار کرنا پڑتا۔‘‘

فیونا بولی: ’’جی آپ نے درست کہا، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ اس طرف آئے۔ مجھے اپنے ہوٹل کا نام یاد تو نہیں ہے، ہاں اگر دیکھ لوں تو پہچان لوں گی۔ آپ ہمیں بس ٹاؤن تک پہنچا دیں۔‘‘

بوٹلی نے اپنی بیوی کی خواہش پر مقامی لوک گانے لگا دیے، باقی راستہ انھوں نے خاموشی سے وہ گانے سن کر گزارا، آخر کار وہ ٹاؤن پہنچ گئے۔ بوٹلی نے کار روکی تو تینوں نے اترنے میں دیر نہیں لگائی، فیونا نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ کار چلی گئی تو اس نے چاروں طرف نگاہیں دوڑا کر کہا: ’’تو یہ ہے وکٹوریہ، سیچلز کا دارالحکومت!‘‘

(جاری ہے …)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں