اشتہار

تخریب کار کارروائیوں کے لیے پولیس کی وردی جگہ جگہ دستیاب

اشتہار

حیرت انگیز

صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں چند روز قبل ہونے والے خودکش دھماکے میں حملہ آوروں نے پولیس کی وردیاں پہن رکھی تھیں جنہیں دیکھ کر سیکیورٹی پر موجود اہلکار دھوکا کھا گئے اور پورا ملک المیے کا شکار ہوگیا۔

اس واقعے کے بعد ایک بار پھر بازاروں میں جگہ جگہ ملنے والی پولیس کی وردیوں سے متعلق سوال اٹھ کھڑے ہوئے۔

اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں سابق آئی جی پولیس طاہر عالم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے دوران پابندی عائد کی گئی تھی کہ بغیر شناختی کارڈ کے کوئی شخص پولیس کی وردی فروخت نہیں کرسکتا لیکن اب کھلے عام اس پابندی کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

- Advertisement -

طاہر عالم کا کہنا تھا کہ جس طرح مسلح افواج نے اپنی وردی کی فراہمی کا ایک سسٹم بنا رکھا ہے ایسا ہی سسٹم پولیس وردی کے لیے بھی ہونا چاہیئے۔

مسلح افواج کے جوانوں کو وردی ادارے کی جانب سے فراہم کی جاتی ہے یا پھر منتخب کردہ کنٹریکٹرز ہی یہ کام کرتے ہیں۔

جب بھی کوئی شخص ان اسٹورز سے وردی یا اس پر لگانے والی اشیا خریدتا ہے تو ایسے شخص کا فوج میں ملازمتی کارڈ، نام اور ٹیلی فون نمبر درج کیا جاتا ہے۔

انٹیلی جنس باقاعدگی سے ان اسٹورز سے رابطے میں رہتی ہے اور معلومات رکھتی ہے کہ کن کن افراد نے وردی خریدی ہے۔

طاہر عالم کا کہنا تھا کہ پولیس کی وردی فراہم کرنے کے لیے بھی یہی طریقہ کار اپنایا جائے تاکہ سیکیورٹی خدشات کم ہوسکیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں