نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں
دونوں اس کی طرف متوجہ ہو گئے، دانیال نے کہا: ’’جلدی بتاؤ!‘‘
’’یہ گھنٹہ گزارنے کے لیے چلو کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ جبران نے مسکراتے ہوئے اپنا آئیڈیا پیش کر دیا۔ دانیال کے منھ سے بے اختیار نکلا: ’’دھت تیرے کی!‘‘ فیونا نے ہنس کر جبران کے آئیڈے کی تائید کی۔
قریب ہی ایک چھوٹا سا کیفے تھا، تینوں اس میں گھس گئے کیوں کہ کوئی اور کیفے تلاش کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انھوں نے کیفے میں بیٹھ کر ایک بڑے سائز کی شرمپ مچھلی منگوائی، جس کے ساتھ ایک بہت سیپی میں درجن بھر مختلف چٹنیاں بھی تھیں۔ وہ مزے لے لے کر کھانے لگے۔ تینوں اتنی بڑی سیپی دیکھ کر حیران ہو گئے تھے، دانیال نے خیال ظاہر کیا کہ یہ اصلی نہیں ہے، لیکن جبران کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ اصلی ہو، کیوں کہ وہ سیچلز میں تھے اور ممکن ہے سیچلز میں اتنی بڑی سیپیاں ہوں۔ وہ دونوں کھانا کم کھا رہے تھے اور تبصرے زیادہ کر رہے تھے، جب کہ فیونا انھیں خاموشی سے دیکھ کر مسلسل کھانے میں مصروف تھی۔ آخر میں فیونا نے ٹشو سے ہاتھ اور منھ صاف کرتے ہوئے کہا: ’’واہ، بہت مزا آیا، بہت مزے دار کھانا تھا۔‘‘
’’ارے تم نے کھا بھی لیا!‘‘ جبران چونک اٹھا۔ فیونا نے کہا کہ تم دونوں باتوں میں لگے ہوئے تھے اور میں کھا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد ان دونوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ فیونا بولی: ’’اب ہمیں بندرگاہ جانا ہے اور وہ کشتی تلاش کرنی ہے جس کا نام لاپلیگ ہے۔‘‘
ایک چھوٹی سی موٹر بوٹ کا ناخدا ان کا منتظر تھا، تینوں کو دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور بولا: ’’میڈم فیونا، مجھے جیکس مونٹ کہتے ہیں، میں آپ کے اور آپ کو جزیرہ سلہوٹ تک لے جانے کی خدمت انجام دوں گا، آپ کشتی پر آئیے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر انھیں کشتی پر آنے کے لیے سہارا دیا۔ کشتی کی تہہ میں لکڑی کے تختوں پر آدھ انچ تک پانی کھڑا تھا۔ دانیال نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی کہ بروشر میں یہ کشتی اتنی بری حالت میں نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ اچانک جبران نے منھ بنا کر سوال کیا: ’’کشتی میں اتنا پانی کیوں ہے؟‘‘
جیکس مونٹ نے جلدی سے کہا: ’’گبھرائیں مت، کشتی میں کوئی سوراخ نہیں ہے۔ دراصل اس قسم کی چھوٹی کشتیوں میں ایسا ہوتا ہے، جب بھی میں کشتی کے موٹر کو اسٹارٹ کرتا ہوں تو لہروں کی وجہ سے تھوڑا سا پانی اندر آ جاتا ہے۔‘‘
فیونا نے جیکس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’آپ انگریزی بہت اچھی بولتے ہیں۔‘‘ وہ مسکرا دیا۔ دانیال نے ایک پاؤں اٹھا کر کشتی کے کنارے پر رکھ دیا تو اس کے جوتے سے پانی سمندر میں گرنے لگا۔ جیکس بولا: ’’میں بہت چھوٹا تھا جب انگریزی سیکھی تھی۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ جیکس مونٹ نے بھورے بالوں کو چمک دار نیلے رنگ کی ٹوپی سے چھپایا ہوا تھا۔ اس نے ٹوپی کو ذرا سا ترچھا کر کے کہا: ’’آپ اپنے مہمانوں کا بھی تعارف کرائیں گی؟‘‘
فیونا بولی: ’’ضرور …. یہ دانیال ہے اور یہ جبران۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں اور اسکاٹ لینڈ میں رہتے ہیں۔‘‘
’’لیکن آپ لوگوں کے والدین کہاں ہیں؟ یقیناً آپ ان کے بغیر تو اس جزیرے پر نہیں آئے ہوں گے۔‘‘ کشتی کے مَلّاح نے پوچھا۔ فیونا نے جلدی سے جواب دیا: ’’جی ہاں، وہ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں ہیں، ہمارے ساتھ نہیں آنا چاہتے تھے، اور ہمارے جانے پر انھیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔‘‘
’’کس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں آپ لوگ؟‘‘ جیکس نے اگلا سوال داغ دیا۔ اس بار دانیال نے جواب دیا لیکن اس کے لہجے میں واضح طور پر بے زاری جھلک رہی تھی: ’’سی سائیڈ فینٹیسی ہوٹل میں!‘‘
’’اچھا وہ تو بڑا شان دار ہوٹل ہے۔‘‘ جیکس نے چونک کر کہا، اس کی باچھیں کھل گئی تھیں۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ آپ کے والدین بہت مال دار ہوں گے جو اس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یقیناً انھوں نے آپ کو بھی اچھی خاصی رقم دی ہوگی اکیلے جانے کے لیے۔‘‘ اس کی گول آنکھیں جبران کی چھوٹی پتلون کی جیب سے باہر جھانکتے ہوئے نوٹوں پر مرکوز ہو گئی تھیں۔
(جاری ہے)