جمعہ, دسمبر 27, 2024
اشتہار

ناصر کاظمی: وہ شاعر جس نے اردو غزل کو چشمِ حیرت اور دلِ مضطر دیا!

اشتہار

حیرت انگیز

ناصر کاظمی نے اردو غزل کو جو طرزِ ادا، ندرت، برجستگی اور بانکپن عطا کیا، اس کا اعتراف ان کے ہم عصر شعرا نے بھی کیا اور باذوق قارئین نے بھی سراہا۔ تحیّر خیزی اور سوز و گداز ناصر کے اشعار کا وہ وصف ہے، جو انھیں اپنے دور کا منفرد غزل گو شاعر بناتا ہے۔ آج اردو کے اس مقبول شاعر کی برسی ہے۔

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

- Advertisement -

یہ بھی پڑھیے:
جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

حُسن و عشق کے موضوعات اور اردو شاعری کے روایتی مضامین یعنی زندگی کی تلخیاں، محرومیاں اور دکھ، حسرتیں، یاسیت اور میّسر آجانے والے خوشی کے لمحات کا بیان ناصر کی شاعری میں بڑی شدّت سے اور انفرادیت کے ساتھ ملتا ہے۔ قابلِ‌ ذکر بات یہ ہے کہ ناصر نے روایت سے اںحراف کیے بغیر اپنے کلام کو نئے لب و لہجے سے آشنا کیا، جو عام فہم اور نہایت دل نشیں‌ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی حلقوں‌ میں‌ مقبول اور ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز ہوئے۔ ان کا ایک مشہور شعر پڑھیے۔

ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

ناصر کاظمی نے دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم چھوڑنی پڑی۔ وہ آزادی کے بعد کسمپرسی کے عالم میں پاکستان پہنچے تھے۔

عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے یوں‌ اپنے کلام کو سجایا کہ شہرت ان کا مقدر بنی۔

ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا تھا۔

ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

ناصر کاظمی کا انتقال 2 مارچ 1972ء کو ہوا۔ وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں