بدھ, دسمبر 25, 2024
اشتہار

چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

جبران کی خوف سے سرسراتی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’یہ ایک بہت بڑا آکٹوپس ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بے اختیار اتنا پیچھے ہٹا کہ اس کی کمر غار کی دیوار سے لگ گئی۔ دانیال نے دہشت زدہ ہو کر کہا: ’’تمھارے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم یہاں ایک بہت بڑے ہشت پا کے ساتھ پھنس چکے ہیں، اب ہم یہاں سے کیسے نکلیں گے؟‘‘ دانیال کے چہرے پر خوف واضح دکھائی دے رہا تھا، وہ بولنے لگا: ’’دیکھو لہریں اونچی ہوتی جا رہی ہیں اور پانی کی سطح بھی۔ مجھے لگتا ہے یا تو ہم ڈوب جائیں گے یا کسی سمندری بلا کی خوراک بن جائیں گے۔‘‘

- Advertisement -

سچائی یہ تھی کہ وہ تینوں انتہائی دہشت زدہ ہو گئے تھے۔ آنکھیں خوف کے مارے ابل رہی تھیں۔ فیونا کا رنگ سفید پڑ چکا تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن ہونٹ کانپ کر رہ جاتے تھے۔ جبران نے تھوک نگلتے ہوئے کہا: ’’یہ ضرور تین پھندوں میں سے ایک پھندا ہے۔‘‘

اچانک تینوں خوف کے مارے چیخ پڑے۔ ان کے سامنے پانی سے سبز مائل کتھئ رنگ کا کوڑے کی طرح بہت موٹا سرا برآمد ہوا۔ جبران خوف سے لرزتے ہوئے بولا: ’’اس پر تو چوسنے والی کنڈلی بھی ہے، اگر یہ ہم میں سے کسی سے چھو گیا تو جسم کا سارا خون چوس لے گا۔‘‘

لمبا نوکیلا تڑپتا کوڑا ان سے کئی گز کے فاصلے پر فضا میں گھوما۔ دانیال کانپ رہا تھا، اس کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’یہ … ابھی ہمارا خون چوس لے گا۔‘‘
فیونا ایسے میں بھی جھلا گئی، اور کہا: ’’بے وقوف مت بنو، آکٹوپس خون نہیں چوستا، ہاں اگر خوں آشام ہو تو پھر ضرور خطرہ ہے۔ یہاں اتنا اندھیرا ہے کہ میں اپنا جادو بھی استعمال نہیں کر سکتی، ادھر پانی کی سطح بھی بلند ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

جبران نے کہا: ’’لیکن تم خود کو چھوٹا اور بڑا تو کر سکتی ہو نا، خود کو اتنا بڑا کردو کہ اس خوں آشام آکٹوپس کو ختم کر سکو۔‘‘

’’لیکن یہ غار تو اتنا بڑا نہیں ہے۔‘‘ فیونا نے غار کی چھت کی طرف سر اٹھا کر دیکھا۔ ’’میں خود کو زیادہ سے زیادہ بارہ فٹ تک بڑا کر دوں گی جو کہ ایک بہت بڑے آکٹوپس کو ختم کرنے کے لیے ناکافی جسامت ہے۔ ویسے میرے خیال میں خوں آشام آکٹوپس کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘

جبران چلایا: ’’وہ دیکھو، دوسرا کوڑے نما سرا بھی پانی سے نکلا ہے۔ اگر تم خود کو بارہ فٹ تک بڑا کر دو گی تو کم از کم اس کے ساتھ مقابلہ تو کر سکوگی نا۔‘‘
دانیال کی روہانسی آواز سنائی دی: ’’ابھی دو ہی سرے باہر نکلے ہیں اور کُل آٹھ ہیں۔ فیونا ہم موت کے منھ میں جانے ہی والے ہیں۔‘‘

’’چپ کرو دانی۔‘‘ فیونا پریشان ہو کر بولی: ’’مجھے سوچنے دو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور چند ہی لمحوں بعد کچھ کہے بغیر اس نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ دانیال بے ساختہ چیخ اٹھا: ’’یہ تم نے کیا کیا… آکٹوپس تمھیں ایک لمحے میں کھا جائے گا اب۔‘‘

دانیال نے خوف کے مارے آنکھیں ہی بند کر لیں۔ جبران حیرت سے اچھل پڑا تھا۔ اس نے کہا: ’’دانی، آنکھیں کھول کر دیکھو۔ فیونا جا جسم بڑا ہو رہا ہے۔ اف میرے خدا!‘‘

جبران کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا، اس کی آنکھوں کے سامنے فیونا کا بدن تیزی سے اپنی جسامت سے بڑا ہوتا گیا اور اتنا بڑا اور لمبا ہو گیا کہ اس کا سر غار کی چھت سے ٹکرانے لگا۔ وہ ایک دیو کی طرح لگ رہی تھی اب۔ دانیال نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور ششدر رہ گیا، اس کی آنکھیں حیرت سے باہر نکل آئیں۔ وہ آنکھیں مل مل کر دیکھنے لگا لیکن اس کے سامنے کا منظر خواب نہیں حقیقت تھا۔ انھیں اپنے سروں کے اوپر فیونا کی باریک آواز سنائی دی: ’’مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے، میں کتنی لمبی ہو گئی ہوں۔‘‘ فیونا انھیں سر جھکا کر دیکھ رہی تھی، دانیال کے منھ سے حیرت زدہ آواز نکلی: ’’بیس فٹ لمبی ہو گئی ہو فیونا، لیکن ہوشیار ہو جاؤ، پانی سے آکٹوپس کی چھ ٹانگیں نکل چکی ہیں!‘‘ اور پھر وہی ہوا جس کا انھیں ڈر لگا تھا۔ آکٹوپس کی کوڑوں کی مانند لہراتی، دہشت ناک ٹانگیں فیونا کی طرف بڑھیں۔ ایک ٹانگ فیونا کی بائیں ٹانگ سے لپٹی اور اسے پانی میں نیچے گرا دیا۔

(جاری ہے…)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں