چین کے معروف دانش وَر اور ادیب لین یوتانگ کی کتاب ‘جینے کی اہمیت’ کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ مختلف خطّوں کے باسی زندگی کو کس طرح دیکھنے کے عادی ہیں اور ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ بالخصوص چین کے لوگ دنیا کو کیسے دیکھتے ہیں۔
لین یوتانگ کی یہ مشہور کتاب دراصل زندگی گزارنے کے چینی فلسفے پر روشنی ڈالتی ہے۔ مصنف نے ہلکے پھلکے انداز میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں تمدن، فطرت عادات اور خصلتوں کے ساتھ ثقافت پر نقطۂ نظر سامنے لایا گیا ہے۔ یہاں ہم اسی کتاب سے ایک اقتباس پیش کررہے ہیں جس کے مترجم مختار صدیقی ہیں۔
کنفیوشس نے عالمگیر امن کے سوال کو افراد کی ذاتی زندگی کی تربیت سے وابستہ کیا تھا۔ سونگ خاندان کے وقت سے آج تک کنفیوشس خیالات کے علماء اور استاد بچّوں کو جو پہلا سبق پڑھاتے ہیں، اس میں مندرجہ ذیل فقرے آتے ہیں اور بچّے کو یہ سبق حفظ کرایا جاتا ہے:
”قدیم لوگوں کا دستور تھا کہ اگر دنیا میں اخلاقی ہم آہنگی کی تمنا کرتے، تو یہ کہتے کہ سب سے پہلے ہمیں خود اپنی قومی زندگی کی تنظیم کرنی چاہیے۔ قومی زندگی کی تنظیم کرنے والے سب سے پہلے گھریلو زندگی کو باقاعدہ بناتے۔ جو لوگ گھریلو زندگی کو منظّم بنانا چاہتے، وہ سب سے پہلے ذاتی زندگی کی تربیت و تہذیب چاہتے۔ وہ سب سے پہلے اپنے دلوں کو پاک صاف کرتے…. دلوں کو پاک صاف کرنے کی خواہش کرنے والے سب سے پہلے نیتوں کو مضبوط بناتے۔ نیتوں کو مخلص بنانے والے سب سے پہلے سمجھ اور مفاہمت پیدا کرتے اور سمجھ، اشیا کے علم کی چھان بین سے پیدا ہوتی ہے۔ جب اشیا کا علم حاصل ہو جائے تب سمجھ پیدا ہوتی ہے، اور سمجھ پیدا ہو جائے تو نیت اور ارادہ مخلص ہو جاتا ہے اور جب نیت صاف اور ارادہ مخلص ہو جائے تو دل صاف ہو جاتا ہے۔ جب دل صاف ہو جائے تو ذاتی زندگی کی تہذیب اور تربیت پوری ہو جاتی ہے۔ ذاتی زندگی کی تربیت اور تہذیب ہو جائے تو گھریلو زندگی منظّم اور باقاعدہ ہو جائے گی۔ اور جب گھریلو زندگی منظم ہو گی تو قومی زندگی بھی منظم ہو جائے گی۔ اور جب قومی زندگی منظم ہو گی تو دنیا میں امن و امان کا دور دورہ ہو گا۔“
”گویا شہنشاہ سے لے کر ایک عام آدمی تک ہر چیز کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ذاتی زندگی کی تربیت اور تہذیب کی جائے یہ ممکن ہی نہیں کہ بنیاد باقاعدہ اور ٹھیک نہ ہو تو ساری عمارت ٹھیک اور باقاعدہ ہو۔ دنیا میں ایسا کوئی درخت موجود نہیں جس کا تنا تو کمزور اور نازک ہو اور اس کی اوپر کی ٹہنیاں بے حد بھاری بھرکم اور مضبوط ہوں۔ اس کائنات کی ہر چیز کی کوئی نہ کوئی علت موجود ہے اور ہر چیز کا دوسری کے ساتھ تعلق اٹل ہے۔ اسی طرح انسانی معاملوں میں بھی ابتدا اور انتہا دونوں موجود ہیں، لیکن ان درجوں کا جاننا، ان کی تقدیم اور تاخیر کا علم حاصل کرنا یہی دانش مندی کی ابتدا، اس کی دہلیز ہے۔“