نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
ہوٹل کے باہر ایک دکان سے انھوں نے اپنے لیے نئے کپڑے اور جوتے خریدے۔ دکان میں داخل ہونے سے قبل انھوں نے اپنے جسموں سے ریت جھاڑی تھی تاکہ دکان گندی نہ ہو۔ خریداری کے بعد وہ ہوٹل کے کمرے میں آ گئے۔ نہا دھونے کے بعد تینوں نئے کپڑے پہن کر لفٹ کی طرف بڑھے۔ ایسے میں جبران نے فیونا کو مخاطب کیا: ’’تم نے موتی کے ساتھ کیا کیا؟‘‘ اس نے فیونا کے خالی ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’پریشان مت ہو، وہ میں نے مومو کی جیب میں رکھ لیا ہے اور بالکل محفوظ ہے۔ میں اس لمبی فراک میں بہت اطمینان محسوس کر رہی ہوں۔ دیکھو اس کی جیبیں بھی گہری ہیں، کوئی بھی چیز آسانی سے چھپ سکتی ہے۔‘‘
فیونا کہتے کہتے رکی اور پھر ان دونوں پر نگاہ ڈال کر بولی: ’’تم دونوں پر بھی نیا لباس بہت جچ رہا ہے۔‘‘
دانیال نے شرما کر کہا کہ تمھارے بالوں میں یہ سرخ ربن اور پھول بہت اچھے لگ رہے ہیں۔ تینوں مسکراتے ہوئے، کھانے کے لیے بنے ہال میں پہنچ گئے۔ بھوک زوروں پر تھی لیکن وہ ہوٹل کی مخصوص سجاوٹ کو اب بھی حیرت سے دیکھ رہے تھے، ویٹر نے انھیں کھڑکی کے پاس والی میز پر بٹھایا اور ایک ایک مینو ان کے حوالے کر دیا، جو بالکل سی شیل کی طرح لگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ویٹر واپس آ کر پوچھنے لگا کہ انھوں نے کون کون سے آئٹم منتخب کیے ہیں۔ فیونا سب سے پہلے بول اٹھی: ’’مجھے آکٹوپس کری اور کوکونٹ مِلک چاہیے۔‘‘
’’ہیں … آکٹوپس کری … یہ کیا چیز ہے؟‘‘ جبران چونک اٹھا۔ سوال کا جواب ویٹر دینے لگا لیکن اس سے پہلے اپنا تعارف کرانا نہیں بھولا: ’’جی میں بتاتا ہوں۔ میرا نام فلپ ہے، میں یہاں آپ کا ویٹر ہوں۔ دراصل آکٹوپس کری یہاں کا خاص سالن ہے۔ آکٹوپس میں بینگن، زعفران، کری مسالا، لہسن، آکٹوپس کے مزید چھوٹے ٹکڑے بھرے جاتے ہیں اور اس پر ادرک اور دار چینی چھڑکی جاتی ہے۔ یہ بے حد ذائقہ دار سالن ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کو پسند آئے گا۔‘‘
دانیال نے مینو پر نگاہ ڈالنے کے بعد ویٹر کو مخاطب کیا: ’’مسٹر فلپ، مجھے تو پہلے کیکڑے کا سوپ چاہیے، اس کے بعد شاہی مچھلی لائیے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے جناب‘‘ ویٹر نے اثبات میں سر ہلایا اور جبران کی طرف مڑ کر آرڈر پوچھا۔ ’’میرے لیے تلی ہوئی شرمپ لا دیں۔‘‘ جبران نے جواب دیا اور اپنا مینو بند کر کے اس کے حوالے کر دیا۔ ویٹر کہنے لگا کہ تلی ہوئی شرمپ کے ساتھ کوکونٹ مِلک میں پکائے گئے کیلوں کی سویٹ ڈش بھی شامل ہے، جس پر پنیر چھڑکا جاتا ہے۔‘‘
’’بہت خوب، یقیناً مجھے پسند آئے گی یہ ڈش۔‘‘ ویٹر کچھ دیر بعد سب کی پسند کے کھانے لے کر آ گیا۔ تینوں نے مزے لے کر کھایا اور پیٹ بھرنے کے بعد تگڑی ٹپ چھوڑ کر اپنے کمرے میں آ گئے۔ دانیال بولا: ’’تو اب چلنے کی تیاری ہو!‘‘
فیونا نے کہا کہ اس کا تو بالکل جی نہیں چاہ رہا کہ واپس جائے، اور گیل ٹے میں بور ہوتی پھرے، لیکن موتی لے جانا بھی ضروری تھا۔ جبران کے بھی یہی جذبات تھے۔ فیونا نے جا کر ہوٹل کے کلرک کو بل دیا تو اس نے مشکوک نگاہوں سے گھورا۔ بل ادا کرنے کے بعد تینوں پام کے درختوں کے پاس آ گئے اور ایک دوسرے کی طرف خاموشی سے دیکھنے لگے۔ فیونا نے گہری سانس لی اور بولی: ’’تم دونوں تیار ہو نا!‘‘
دونوں نے سر ہلایا اور ہاتھوں میں ہاتھ دے کر کھڑے ہو گئے۔ ایک بار پھر دور دراز کے جزیرے سے ان کی واپسی کا وقت آ گیا تھا، ان کے چہروں پر گھبراہٹ کے آثار تھے۔ انھیں ایک بار پھر جادوئی منتر کے ذریعے ہزاروں میل کا سفر طے کرنا تھا اور وہ یہ سفر کئی مرتبہ طے کر چکے تھے لیکن ہر بار جب وہ اس سفر سے گزرتے تھے، تو ان جانا خوف انھیں گھیر لیتا تھا۔ کیا پتا، کبھی جادو میں کوئی گڑبڑ ہو، اور وہ پھر کبھی گھر نہ پہنچ سکیں۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو تسلی دینے لگے اور پھر فیونا کے لب ہلنے لگے:
’’دالث شفشا یم بِٹ!‘‘
(جاری ہے…)

Comments