نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
جونی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ دوگان نے ایسا ہی کیا تھا، اور جو بات کسی کو معلوم نہیں، وہ یہ ہے کہ شہزادی آنا بھی ماں بننے والی تھی۔ ان کا بچہ جاربی دوگان کا بیٹا تھا لیکن آنا نے یہ بات دنیا سے چھپائے رکھی۔ شہزادیاں والدین کے مرنے کے کئی سال بعد قلعہ آذر آئیں، اور یہیں رہنے لگیں۔ یہیں پر انھوں نے شادیاں کیں۔ جاربی کو ایک مقامی دیہاتی نے پالا تھا۔
’’مائری، آپ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔‘‘ جیک نے ان کی طرف مڑ کر کہا: ’’آپ کا ورثہ بلاشبہ قابل فخر ہے، کم از کم آدھا تو ضرور ہے۔ شہزادی آنا ایک بہت ہی خوب صورت خاتون تھیں۔ دوگان کے ظلم سے نجات پا کر انھوں نے خوش گوار زندگی گزاری تھی۔‘‘
سب سے تعارف کے بعد مائری نے ایک طویل سانس کھینچی اور کہا: ’’ہزاروں سال قدیم انسانوں سے مل کر مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے۔ پتا نہیں آج کی رات اور کتنے عجائب دیکھنے کو ملیں گے۔ پتا نہیں کیوں میں اچانک سنسنی سی محسوس کرنے لگی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی شیطانی مخلوق ہو!‘‘
’’مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘ جمی بولا: ’’لیکن یہ یہاں کی ہوا کی وجہ سے ہے۔‘‘
مائری نے اپنے بازؤں پر مساج کیا اور دیواروں پر نظریں دوڑانے لگیں۔ ایسے میں انھیں شیشے کی منقش کھڑکی نظر آ گئی۔ ’’یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے حال ہی میں صاف کی گئی ہو۔‘‘
فیونا جلدی سے بولی: ’’ممی، یہ دانی نے صاف کی ہے، یاد رہے کہ ہم یہاں پہلے بھی آ چکے ہیں۔ یہ میز دیکھیں ممی، یہ بہت خاص میز ہے۔ میں آپ کو اس کے بارے میں بعد میں بتاؤں گی، ویسے یہ بہت پرانی ہے، حتیٰ کہ کنگ کیگان کے وقتوں سے بھی پہلے کی ہے۔‘‘
جیک، جیزے اور جمی میز کے پاس آ کر بہ غور دیکھنے لگے۔ میز پہچان کر ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ان سے زیادہ اس میز کی اہمیت اور خاصیت سے بھلا کون واقف تھا۔
عین اسی وقت سیڑھیوں پر دھواں سا پھیل گیا جو اُن کی طرف بڑھنے لگا تھا اور پھر چھت کی طرف اٹھ گیا۔ پھر وہ ایک دیوار کے پیچھے چھپ گیا، اُن میں سے کسی نے بھی اس کی موجودگی محسوس نہیں کی تھی۔ اگلے لمحے پہلان نے پہچان لیا کہ کمرے میں دراصل تاریخ نویس آلرائے کیتھ مور اور کیگان کے تین آدمی ہیں۔ یہ جان کر وہ تیزی سے مڑا اور سیڑھیاں اترتے ہوئے تیز رفتاری کے ساتھ ڈریٹن کے پاس جانے لگا لیکن وہ اسے سیڑھیوں ہی پر مل گیا۔ ڈریٹن کے گرد دھوئیں کی طرح پھیل کر اس نے تیز لہجے میں کہا: ’’تم یہاں کیا کر رہے ہو، میں نے تمھیں بڑے غار ہی میں رہنے کے لیے کہا تھا۔ وہ سب قلعے میں آ چکے ہیں!‘‘
ڈریٹن ٹارچ تھامے تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ ’’میری سانسیں پھولنے لگی ہیں، یہاں تو ہزاروں سیڑھیاں ہیں، اور کتنا نیچے ہے یہ غار!‘‘ ’’ہونہہ… چند ہی قدم اٹھا کر تھک گئے ہو لڑکے۔‘‘ پہلان نے طنز کیا۔ ’’جلدی کرو، کیا تم مزید تیز نہیں چل سکتے۔‘‘ وہ بے چینی سے بولا، کیوں کہ وہ بار بار پیچھے مڑ کر ڈریٹن کا انتظار کرنے لگتا تھا۔
ڈریٹن نے ٹارچ اپنے سامنے رکھا تھا تاکہ کوئی مخلوق سامنے آئے تو اس سے نمٹ سکے۔ اچانک کوئی چیز اوپر سے آئی اور اس کے ہاتھ سے ٹکرا گئی۔ اس کی توجہ اس طرف ہو گئی اور وہ اپنے راستے میں آئے ہوئے لکڑی کے پرانے اور ٹوٹے کریٹ کو نہیں دیکھ سکا۔ غلط قدم پڑتے ہی اس نے ایک جھٹکا کھایا، توازن بگڑا اور اگلے لمحے وہ سیڑھیوں پر گلاٹیاں کھاتا ہوا نیچے گرنے لگا۔ بڑی مشکل سے اس نے خود کو روکا۔ لیکن اس کے گرنے اور کریٹ کی آواز سے قلعے میں دور تک بازگشت پھیل گئی تھی!