کئی افراد ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنی مادری اور قومی زبان کے علاوہ دوسری زبانیں سیکھنے کا بھی بے حد شوق ہوتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں ان کا یہ شوق کتنا فائدہ مند ہے؟
نیویارک ٹائمز کے مطابق نیورو بائیولوجی آف ایجنگ کے جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ زبانیں جاننا یادداشت بڑھانے کے علاوہ ڈیمنشیا سے بچاتا ہے اور بزرگوں میں علمی کمی کا سد باب کرسکتا ہے۔
جرمنی میں ادھیڑ عمر اور بڑی عمر کے سینکڑوں مضامین کے مطالعے میں یہ طے پایا کہ جو لوگ چھوٹی عمر سے ہی دو زبانیں بول سکتے ہیں ان کا سیکھنے، یادداشت، زبان اور خود پر قابو پانے کے ٹیسٹ میں صرف ایک زبان بولنے والے مریضوں کے مقابلے میں زیادہ اسکور ہوتا ہے۔
مطالعے میں انسٹھ سے چھہتر سال کی عمر کے سات سو چھیالیس افراد سے الفاظ، یادداشت، توجہ اور حساب سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔
مثال کے طور پر ان سے پہلے نام کی اشیاء کو یاد رکھنے، الفاظ کو پیچھے کی طرف ہجے کرنے، تین حصوں کے حکموں پر عمل کرنے اور ان کے سامنے پیش کردہ ڈیزائن کی کاپی کرنے کو کہا گیا۔
تحقیق میں حصہ لینے والوں میں سے تقریباً 40 فیصد کو یادداشت کے مسائل نہیں تھے، جبکہ دیگر افراد نے اس سے قبل الجھن یا یادداشت میں کمی جیسے مسائل کی وجہ سے ڈاکٹر سے رجوع کیا تھا۔
اس بات کا تعین کیا گیا کہ جن لوگوں نے 13-30 یا 30-65 سال کی عمر میں دوسری زبان سیکھی اور بولی ان میں زبان، یادداشت، ارتکاز، توجہ اور فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں میں ان لوگوں کے مقابلے زیادہ مثبت نتائج ملے جو دوسری زبان نہیں بولتے تھے۔
محققین کا کہنا تھا کہ کئی زبانوں کو سیکھنا دماغ کو مثبت انداز سے بدلتا ہے اور دماغی نیٹ ورکس میں آنے والی تبدیلیاں صلاحیتوں کو مزید بڑھاتی ہیں۔