ہندوستان میں مغل سلطنت کی ایک عظیم نشانی دلّی کا وہ لال قلعہ ہے جسے کبھی قلعۂ مبارک کہا جاتا تھا۔ اسی قلعے میں میرزا علی بخت بہادر محمد ظہیر الدّین اظفری گورگانی نے 1758ء میں آنکھ کھولی۔ وہ بیک وقت اُردو، ترکی اور فارسی زبانوں میں شاعری کرتے تھے اور ایک نثر نگار اور انشاء پرداز تھے۔
ہندوستان میں مغلیہ حکومت کو اس دور میں نہ صرف بیرونی حملہ آوروں کا خطرہ تھا بلکہ اقتدار کی خاطر آپس میں لڑنے اور سازشوں میں گھرے مغل بادشاہ، شہزادے اور شاہی خاندان کی شخصیات محفل عیش و طرف اور ایسی کئی خرافات کے عادی ہوچکے تھے جو ہندوستان پر ان کی گرفت کم زور کررہے تھے۔ اسی دور کے مرزا اظفری بھی مغل شاہ زادگان میں سے ایک تھے جن کا اصل نام محمد ظہیر الدّین اور لقب علی بخت بہادر گورگانی تھا۔ دہلی میں انھیں میرزائے کلاں کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ ان کے والد کا نام سلطان محمد ولی تھا جو منجھلے صاحب مشہور تھے۔ مرزا اظفری کی والدہ حضرت میر ابو العلاء اکبرآبادی کی اولاد میں سے تھیں۔ مرزا اظفری کی تعلیم و تربیت دہلی کے لال قلعہ میں ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغلیہ سلطنت کی شمالی سرحدوں سے احمد شاہ ابدالی کے حملوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اس دور کے رواج کے مطابق قرآن اور ضروری دینی تعلیم ابتدائی عمر ہی میں دی گئی اور مرزا بڑے ہوئے تو علم و ادب کا شوق پیدا ہوا اور مطالعہ کی عادت بھی پختہ ہوگئی۔
مرزا گورگانی قلعۂ معلّٰی کے تمام شہزادوں میں لائق فائق تھے۔ انھوں نے عربی کے علاوہ ترکی، فارسی اور اردو زبان پر عبور حاصل کیا اور کہتے ہیں کہ عربی سے ترکی، فارسی اور اردو زبانوں میں ترجمہ بھی کر لیتے تھے۔ انھوں نے بعد میں مدراس میں رہتے ہوئے انگریزی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ مرزا کی علم و فنون میں دل چسپی اور سیکھنے کا شوق ایسا تھا کہ علومِ ادبیہ کے ساتھ ساتھ طبّ اور علاج معالجہ بھی سیکھ لیا۔ وہ اس فن میں حکیم عنایت اللہ اور حکیم میر حسن دہلوی کے شاگرد تھے۔ مختلف ادبی تذکروں اور مغل دور کی تاریخ پر مبنی کتب میں لکھا ہے کہ مرزا گورگانی قلعۂ مبارک میں سرکاری اطبا کی نیابت میں شاہی خاندان کی شخصیات اور متعلقین کا علاج بھی کرتے تھے۔
تیموری خاندان کے دوسرے شہزادوں کی طرح انھوں نے بھی اپنی نوجوانی کا سنہرا زمانہ قلعۂ مبارک میں شاہی پابندیوں کے ساتھ گزار دیا۔ دوسری طرف غلام قادر روہیلہ کے لال قلعہ پر قابض ہو جانے کے بعد اور شہنشاہ شاہ عالم ثانی کی معزولی اور ان پر دردناک مظالم کے وقت مرزا اظفری نے بہت بہادری سے محل کی عصمت و ناموس کی مگر بعد میں حالات بہتر ہونے پر کٹھ پتلی بن کر تخت پر بیٹھنے والے شاہ عالم ثانی نے اظفری سے کچھ اچھا سلوک نہ کیا۔ وہ اپنے وعدوں سے مکر گئے۔ دراصل مرزا اور دیگر شہزادے ایک شاہی دستور کے تحت قید قلعۂ مبارک میں قیدی تھے اور انھیں سلاطین کہا جاتا تھا۔ یہ سب تخت اور تاج کی لڑائیوں کے لیے کیا جاتا تھا اور شہزادوں کو دربار اور حکومت میں منصب و عہدہ اور ہر قسم کے اثر و رسوخ سے دور رکھا جاتا تھا۔ اسی دستور سے بیزار ہو کر اظفری 1788ء کو لال قلعہ سے فرار ہوگئے اور تاریخی کتب میں آیا ہے کہ وہاں سے نکل کر وہ جے پور، جودھ پور اور اودے پور کے راجاؤں کے مہمان بنے۔ بعد میں مرزا اظفری لکھنؤ پہنچے جہاں اودھ کے حکم ران آصف الدّولہ نے خوش آمدید کہا۔ وہاں کئی برس عزّت و آبرو سے بسر کیے۔ اسی دوران مرزا کے بھائی اور تمام متعلقین، قلعہ میں رہ جانے والی بیوی اور اولاد کے ساتھ والدہ بھی قلعہ چھوڑ کر بخیریت لکھنؤ پہنچ گئے تھے۔ بعد میں مرزا مدراس گئے اور وہیں مستقل قیام کیا۔ مدراس میں مرزا کو نواب عمدۃ الامراء سے بڑی توجہ اور شفقت ملی اور نواب انھیں اپنی مسند پر بٹھاتے اور ادب ملحوظ رکھتے تھے۔
مدراس میں مرزا گورگارنی نے ایک پٹھان کی لڑکی سے شادی کر لی تھی اور اس کے بطن سے کئی اولادیں ہوئیں جن میں سے ایک لڑکے کا نام اعلیٰ بخت تھا۔
مرزا فارسی، ترکی اور اُردو میں شعر کہا کرتے تھے۔ اشعار میں رعایتِ روزمرّہ اور محاورہ بندی اچھی ہے لیکن بلندیٔ تخیل کا فقدان ہے۔ مدراس میں قیام کے دوران مرزا نے دہلی اور لکھنؤ میں اپنے متعلقین اور احباب کے علاوہ جو خطوط راجاؤں اور نوابوں کو لکھے ہیں، اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فارسی زبان پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔ ریختہ میں خود کو میر تقی میر کا شاگرد بتاتے تھے۔
1801ء کو نواب کرناٹک نواب عمدۃُ الامراء کا انتقال ہوگیا تو مرزا کو بڑا رنج ہوا اور وہ لکھتے ہیں کہ ان کی زندگی بے کیف و بے لطف گزرنے لگی۔ 1819ء میں مرزا اظفری نے مدراس ہی میں وفات پائی۔
مرزا نے اپنی زندگی کے کچھ حالات اور واقعات بھی قلم بند کیے ہیں اور ان کی کتاب کے نسخے لندن اور مدراس میں موجود ہیں جس میں دہلی کے قلعۂ مبارک کی لفظی جھلکیاں ان کی شان دار نثر کا ثبوت ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے جب کہ ایک دیوان بھی دستیاب ہے۔