سلجوق سلطان احمد سنجر کی سلطنت مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے علاقوں پر پھیلی ہوئی تھی جسے اسلامی دنیا میں اس لیے اہمیت حاصل رہی ہے کہ دولتِ عباسیہ کے خاتمے کے بعد اسی جھنڈے تلے عالمِ اسلام کو ایک مرکز میّسر آیا تھا۔ یہ سلجوق خاندان کا وہ کارنامہ ہے جو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔
شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے سلطان سنجر کی شان و شوکت کا ذکر اپنی ایک نظم میں کیا ہے۔ سلطان احمد سنجر 8 مئی 1157ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔
سلطان سنجر کو تاریخ کے ایک مشہور معزز ترک حکم ران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی سلطنت خراسان، غزنی اور دریا کے پار عراق، آزربائیجان، آرمینیا، شام، موصل اور گرد و نواح تک پھیلی ہوئی تھی۔ سلطان سنجر کی شان و شوکت اور عظمت و سطوت ضربُ المثل ہے۔ تاریخ دان ابن خلقان نے سنجر کے بارے لکھا ہے کہ وہ انتہائی طاقت ور بادشاہ تھے اور سلجوقیوں میں سب سے زیادہ نرم مزاج اور سخی تھے۔ الذہبی کہتے ہیں کہ سلطان سنجر ایک باوقار، زندہ دل، سخی اور شفقت کرنے والا سلطان تھا۔
علّامہ اقبال نے سلطان کو اپنے اشعار میں یوں سراہا ہے۔
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود!
فقر جنیدؔ و با یزیدؔ تیرا جمال بے نقاب!
عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہِ سنجر و فقرِ جنیدؒ و بسطامیؒ
قدیم خراسان کے شہر مرو میں سلطان احمد سنجر کا مقبرہ آج بھی موجود ہے جو اب ترکمانستان کا حصّہ ہے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ 1221ء میں تولوئی خان کی سرکردگی میں منگولوں نے مرو شہر پر لشکر کشی کی تو اس مقبرے کو بھی منگولوں کے ہاتھوں بڑا نقصان پہنچا اور اسے آگ لگا دی گئی تھی، مگر مقبرے کا بڑا حصہ آگ سے محفوظ رہا۔
سلطان احمد سنجر سلجوق خاندان کے چھٹے سلطان تھے اور ان کا نام ابو الحارث، سنجر بن ملک شاہ اول، بن الپ ارسلان بن داؤد بن میکائیل بن سلجوق بن دقاق لکھا ہے۔ سلطان سنجر کی وفات کے ساتھ ہی سلجوق سلطنت ختم ہوگئی تھی۔ ان کے بعد داؤد بن محمود سلجوقی تخت نشین ہوا۔