بدھ, دسمبر 4, 2024
اشتہار

آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں کی سماعت: اٹارنی جنرل کی چیف جسٹس سے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد :مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کیس میں اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کردی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کےمطابق بینچ میں نہیں بٹھاسکتی۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی ، بینچ میں جسٹس اعجاز الااحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس شاہد وحید ،جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور چیف جسٹس سے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کی ، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ ججز کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کر سکتی ہے، اٹارنی جنرل صاحب عدلیہ کی آزادی کامعاملہ ہے، بہت ہوگیا اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔

- Advertisement -

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ افسوس سےکہنا پڑ رہا ہےغیر ارادی طور پر کوشش کی گئی کہ ججز میں دراڑ ڈالی جائے لیکن 9مئی کے سانحے کےبعدعدلیہ کےخلاف بیان بازی بند ہوگئی۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ ہمارےانتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں مزید کہا کہ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کوریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی، حکومت ہم سےمشورہ کرتی توکوئی بہتر راستہ دکھاتے، آپ نے ضمانت اورفیملی کیسزکو بھی اس قانون سازی کاحصہ بنادیا۔

چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہنا تھا کہ حکومت کسی جج کواپنی مرضی کےمطابق بینچ میں نہیں بٹھاسکتی ، ہم نے سوال پوچھا 184 بی میں لکھا ہےکم از کم 5 ججز کا بینچ ہو، اگر آپ نے ہم سےمشورہ کیا ہوتا توہم آپ کوبتاتے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 9مئی کےواقعات کا فائدہ یہ ہوا جوڈیشری کیخلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہوگئی ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بہت ادب سے استدعا ہےکہ لارجر بینچ یہ کیس نہ سنے۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین نے دلائل میں سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حاضر سروس جج کی تعیناتی سےپہلےچیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے، کسی پرائیویٹ شخص کو بھی کمیشن میں لگانے سے پہلے مشاورت ضروری ہے، یہ جوڈیشل کارروائی ہوتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملے کی وضاحت دی جا سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت عدلیہ کے معاملات میں کوارٹرز کا خیال کرے، انکوائری کمیشن میں حکومت نے خود ججز تجویز کئے، اس سے پہلے 3 نوٹیفکیشن میں حکومت نے ججز تجویز کئےجنہیں بعدمیں واپس لیاگیا۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایکٹ 2017 کو چیلنج نہیں کیا گیا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 1956ایکٹ آئین کے احترام کی بات کرتا ہے اس نکتے پر بعد میں آئیں گے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس نکتے پر ابھی تیار ہیں۔

سپریم چیف جسٹس نے وفاقی حکومت سے گزارش کی کہ آئین کا احترام کریں اور آئین کا احترام کرتے ہوئے روایات کے مطابق عمل کریں، معذرت سے کہتا ہوں حکومت نے ججز میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ اختیارات سےمتعلق قانون میں حکومت نے 5ججز کے بینچ بنانےکا کہہ دیا، نئے قانون میں اپیل کیلئے پانچ سے بھی بڑا بینچ بنانے کا کہہ دیا، ہمارے پاس ججز کی تعداد کی کمی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جلد بازی میں عدلیہ سےمتعلق قانون سازی کی ،حکومت قانون ضرور بنائے لیکن مشاورت کرے ، حکومت بتائے سپریم کورٹ سےمتعلق قانون سازی پرکس سے مشورہ کیا ، ہم سے مشورہ کرتےتو ضرور مشورہ دیتے۔

جس پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ ان تمام امور کا حل ہو سکتا ہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے حکومت مسائل حل کرے تو ہم بھی ریلیف دیں گے، سپریم کورٹ کے انتظامی امور میں پوچھے بغیر مداخلت ہوگی تو یہ ہوگا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہمیں احساس ہے کہ آپ حکومت پاکستان کے وکیل ہیں ، تمام اداروں کو مکمل احترام ملنا چاہیے،
یہ سب انا کی باتیں نہیں، آئین اختیارات تقسیم کی بات کرتا ہے، عدلیہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ، ہم انا کی نہیں آئین کی بات کررہے ہیں۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں