نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابلِ ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
’’مجھے نہیں لگتا اینگس، کہ یہ سب ٹھیک ہے۔‘‘ مائری تشویش کے عالم میں کہنے لگیں: ’’یہ بہت خطرناک لگتا ہے۔ اگر انھیں کچھ ہو گیا تو کیا ہوگا؟ اگر میں نے انھیں جانے دیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔‘‘
فیونا، جس کا منھ ونیلا کیک سے بھرا ہوا تھا، جلدی جلدی کیک نگل کر بولی: ’’ممی، ہمیں کچھ نہیں ہوگا، میں کتنی مرتبہ آپ سے کہہ چکی ہوں۔ انکل، آپ انھیں وہ جادوئی گولا کیوں نہیں دکھاتے!‘‘
’’ہاں، تم نے ٹھیک کہا۔‘‘ اینگس نے سَر ہلاتے ہوئے کہا اور جادوئی گولا لا کر مائری کو دکھایا۔ ’’یہ دیکھو، یہ ہے رالفن کا گولا، کیا یہ شان دار نہیں ہے!‘
مائری نے حیرت کے ساتھ جادوئی گیند ہاتھوں میں لے کر دیکھی۔ ’’شان دار، یہ بہت خوب صورت ہے، اس میں لگے قیمتی پتھر تو دم بہ خود کر دیتے ہیں، اور ان کے اندر جو ڈریگن بنے ہوئے ہیں، ان کا تو جواب نہیں، لیکن یہ کیسے ممکن ہوا؟‘‘
اس بار جونی نے لب کشائی کی: ’’ایسا کرتے ہیں کہ بچوں کو جانے دیتے ہیں، اس دوران ہم آپ کو اس گیند سے متعلق سب کچھ بتا دیتے ہیں۔ انھیں جانے کے بعد بس چند ہی منٹ لگیں گے اور یہ واپس بھی آ جائیں گے، اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ جمی نے بچوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’بھئی، اس بار ہو سکتا ہے کہ تم لوگ کسی ٹھنڈے مقام پر پہنچو، اس لیے اپنے کوٹ ساتھ لے کر جاؤ۔ یاد ہے نا کہ ہائیڈرا گرم مقام تھا، آئس لینڈ ٹھندی جگہ تھی اور سیچلز پھر گرم جگی تھی، تو اب ٹھنڈے مقام کی باری ہے۔‘‘
اینگس بھی ان کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولے: ’’ٹھہرو، تم لوگوں کو بھوک بھی لگ سکتی ہے، اس لیے بیگ میں بسکٹ ڈال کر جاؤ، اور تمھارے پاس رقم بھی ہے یا نہیں؟‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے جیب سے نوٹ نکال کر فیونا کی طرف بڑھائے۔ ’’یہ بھی رکھ لو، اور یہ کیمرہ بھی، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تمھاری مہم کی تصویری جھلکیاں بھی دیکھ سکیں۔‘‘
مائری نے فیونا کے بیگ میں پانی کی بوتل بھی رکھ دی۔ ایسے میں جونی بھی پیچھے نہیں رہا، اس نے جیب سے قیمتی بریسلٹ نکال کر کہا: ’’فیونا، یہ ملکہ عالیہ کا پسندیدہ کڑا تھا۔ یقیناً وہ جان کر خوش ہوں گی کہ اسے تم نے پہنا، کیوں کہ تم ان کا خون ہو۔‘‘ جونی نے کڑا فیونا کی کلائی میں پہنا دیا۔ ’’دیکھو، کتنا پیارا لگ رہا ہے۔‘‘
فیونا نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور بولی: ’’اب ہمیں مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم جا رہے ہیں، اور ممی پریشان مت ہونا، ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
ایسے وقت جبران اور دانیال اس کے دونوں اطراف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ ان کے چہروں پر عجیب تاثرات تھے۔ وہ پُر جوش بھی تھے اور ان جانے خدشات میں گرفتار بھی۔ وہ کمرے کے وسط میں کھڑے تھے اور سب کی نظریں ان پر ایسے جمی تھیں جیسے وہ دنیا کی عجیب و غریب مخلوق ہوں۔
یکایک فیونا چیخی: ’’ممی، ہم جا رہے ہیں!‘‘ تینوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے۔ مائری کو لگا کہ وہ کوئی بھیانک سپنا دیکھ رہی ہیں۔ یکایک وہ جاگ پڑی اور انھیں روکنے والی تھیں لیکن ان کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ مائری نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں کے سامنے رنگا رنگ تارے جگمگا رہے ہیں۔ ان کی سماعت سے جو آخری الفاظ ٹکرائے تھے، وہ کسی ان جانی زبان میں بولا گیا منتر تھا۔
دالث شفشا یم! اور پھر ان کی اکلوتی بیٹی اپنے غیر ملکی دوستوں کے ساتھ وہاں سے غائب ہو چکی تھی!
(جاری ہے….)

Comments