اسلام آباد : وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ دفاعی نظام پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل ٹریفک قوانین نہیں آرمی ایکٹ کے تحت ہی ہوگا ، آرمی ایکٹ کے تحت کسی کا ٹرائل نہیں ہوسکتا تو پھر اسے کالعدم قرار دے دیں۔
تفصیلات کے مطابق وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ انصاف کا سب سے بڑا ایوان ہے، عدالت میں کل 9 رکنی بینچ سماعت کیلئےبیٹھا، چیف جسٹس نامزد ہونیوالے سینئر ترین جج نےکل کہا میں اس بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا، اگر یہ بات میں کہوں تو شاید مجھ پر توہین عدالت لگ جائے، سپریم کورٹ کا سینئر ترین جج کہہ رہا ہے کہ میں اس عدالت کو نہیں مانتا۔
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ سینئرترین جج نے کہا اس عدالت کی آئینی اور قانونی کوئی حیثیت نہیں، عدالت کا فرض ہے آئین وقانون کے تحت فیصلے کرے، عدالت کایہ اختیارنہیں کہ قانون سےاوپراورخلاف فیصلےکرے، عدالت نے جوفیصلہ کرناہے وہ قانون اورآئین کےمطابق کرناہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ آئین میں کہیں درج نہیں کہ قانون بن رہا ہو اور اسٹے دیدیا جائے، کسی قانون کو اسٹے کرنا عدالت کااختیارنہیں ہے، ہمارے معزز سینئر ترین وکلا پٹیشن لائے، یقیناً انھوں نے وکالت میں اچھا کام کیا، مجھے لگتا ہے پٹیشنر وکلا اپنی اننگ کھیل چکے ان کی فزیکل ،مینٹل اسٹیج اتنی اچھی نہیں، وہ دونوں وکلا ایسے کام کر کے اپنا تشخص خراب کررہےہیں۔
انھوں نے بتایا کہ مصدقہ خبر ہے پٹیشن سے پہلے دونوں سینئروکلازمان پارک میں فتنےسےملے، فتنے سے ملنے کے بعد یہ دونوں وکلاچیف جسٹس آف پاکستان سے بھی ملے، گزشتہ دنوں خواجہ طارق رحیم اورعبدالقیوم کے درمیان ایک گفتگو ہوئی تھی، خواجہ طارق رحیم نے جو فیصلہ فرمایا اگلے روز وہی فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا۔
رانا ثنااللہ نے سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کے حوالے سے کہا کہ کل 9 ممبر کا بینچ بیٹھا 2 سینئر ممبران نے بیٹھنے سے انکار کردیا، انہوں نے کہا اعتراض ہے پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کریں، ٹھیک 31 منٹ بعدان 2 جج صاحبان کو مائنس کرکے 7 رکنی بینچ بنا دیا گیا، جس قسم کے رویےا پنائے جارہے ہیں ان کا نتیجہ درست نہیں ہوگا۔
وزیر داخلہ کا تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بابارحمتے اس وقت عبرت کانشان ہے اور سیاسی جماعت کے ٹکٹ فروخت کررہاہے، عدلیہ کےفیصلوں کی طاقت شفافیت،غیرجانبداری میں ہے، عدلیہ کے فیصلوں میں طاقت تب ہوگی جب قوم قبول کرےگی، جب انصاف کی بنیاد پر فیصلےنہ ہوں توان کی اہمیت نہیں ہوتی۔
انھوں نے مزید کہا کہ افسوس ہے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے فیصلےپرعمل نہ ہوسکا، وہ فیصلہ اب تاریخ کا حصہ ہے بلکہ بہت سی چیزیں تاریخ کاحصہ بن گئیں، یہ فیصلہ ہونے سے پہلے ہربارایسوسی ایشن نے استدعا کی فل بینچ بنادیں۔
پرویز الہی سے متعلق رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویزالہٰی نے اس بار وحشیانہ طریقےسےصوبےکولوٹا، لاہورہائیکورٹ بارمیں جاکرمعلوم کرلیں کس طرح سے سودے ہورہے ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کسی کاٹرائل نہیں ہوسکتا تو پھر اسے کالعدم قرار دے دیں، دفاعی نظام پر کوئی حملہ آور ہوگا تو اسکا ٹرائل ٹریفک قانون نہیں آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا، یہ لوگ باقاعدہ طور پر آرمی تنصیبات پر گئے حملہ آور ہوئے آگ لگائی گئی۔
9 مئی کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جنہوں نے شہدا کے یادگاروں کی بےحرمتی کی آگ لگائی کیا ان کے انسانی حقوق ہیں، کیا سازش اور منصوبہ بندی کرنےوالوں کاہیومن رائٹ ہے، 9 مئی واقعات کے بعد بدبخت ٹولے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں ہرقیمت لایا جائے گا۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ فیصلوں پرعمل ہوناچاہئے، اگر فیصلے انصاف پرمبنی نہ ہوں توانکی کوئی وقعت نہیں ہوتی، مجھے اندیشہ ہے اس بینچ کا فیصلہ بھی 14مئی والے فیصلےسےدوچار نہ ہوجائے، یہ فیصلہ قوم کی امنگوں کےمطابق ہوناچاہئے۔